Please wait..

(۱۳)

 
وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نَے نوازی

معانی: کم نصیبی: بے نصیبی ۔ بے نیازی: بے پروائی ۔ نَے نوازی: بانسری بجانا یعنی قوم کو بیدار کرنا ۔
مطلب: قادر مطلق سے خطاب کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں اتنا بڑا تخلیق کار ہونے کے باوجود میں اب بھی اسی طرح کم نصیب ہوں جس طرح کہ تو ہر معاملے سے بے نیاز ہے ۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شعر گوئی میں میں نے جو کمال حاصل کیا تھا وہ عملاً میرے لیے بیکار ثابت ہوا ۔

 
میں کہاں ہوں ، تو کہاں ہے، یہ مکاں کہ لامکا ں ہے
یہ جہاں مرا جہاں کہ تری کرشمہ سازی

مطلب: خدایا یہ تو بتا کہ میں کس مقام پر ہوں اور تو کس مقام پر ہے اور جس جگہ میرا قیام ہے وہ مکان ہے کہ لامکان ۔ یہ حقیقت بھی ایک سربستہ معلوم ہوتی ہے ۔ یہ عالم امکان میرے اپنے تخیل کا پیدا کردہ ہے یا اسے تیری کرشمہ سازی نے تخلیق کیا ہے مطلب یہ کہ انسان کو ابھی تک حقیقت ابدی کا سراغ نہیں مل سکا ۔

 
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی

معانی: کبھی سوز و سازِ رومی کبھی پیچ و تاب رازی: کبھی رومی کے نظریے پسند کیے کبھی رازی کی تفسیر میں الجھا ۔
مطلب: میری زندگی کی بیشتر راتیں تذبذب اور ذہنی کشمکش کا شکار رہیں کبھی مولانا رومی کے سوز و ساز سے دل ہم آہنگ ہوا اور کبھی اسی پر امام رازی کی فلسفیانہ موشگافیاں مسلط رہیں ۔

 
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی

معانی: فریب خوردہ شاہیں : دھوکے میں آیا ہوا مسلمان ۔ کرگسوں : گدھ، بُرے لوگ ۔ رسمِ شاہبازی: عقابوں کے طریقے ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے شاہیں اور کرگس کی علامتوں کے ذریعے قوم کے نونہالوں کی جانب اشارہ کیا ہے کہ وہ جس بزدلانہ اور منافقانہ ماحول میں پرورش پا رہے ہیں ان سے جرات مندی اور انقلاب پسندی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ۔ اس کی توجیہ کچھ یوں بھی ہوتی ہے کہ جو قوم کے نونہال انگریز کی غلامی اور ان کی تقلید کو ہی شرف قبولیت دے چکے ہیں ان سے ایسے نظام اور اقدار سے بغاوت کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ۔ وہ تو اس حقیقت سے بھی بے خبر ہیں کہ آزاد اور حوصلہ مند نوجوانوں کی فطرت کیا ہونی چاہیے ۔

 
نہ زباں کوئی غزل کی، نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دل کشا صدا ہو، عجمی ہو یا کہ تازی

معانی: اس شعر میں اقبال نے عہد کے تخلیقی عمل کو بے معنی قرار دیتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس میں تاثر ناپید ہے ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ قوم کو کوئی پر لطف اور دلکشا نغمہ ملے جو خواہ فارسی زبان میں ہو یا عربی میں اس کے لیے زبان کی کوئی قید نہیں ۔

 
نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ سپہ کی تیغ بازی، وہ نگہ کی تیغ بازی

مطلب: اس شعر میں درویشی اور بادشاہی کے حوالے سے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ بظاہر وہ دونوں میں کوئی امتیاز اور فرق محسوس نہیں ہوتا ۔ درویش اپنے افکار اور خیالات کے ذریعے اور بادشاہ تلوار کے ذریعے لوگوں پر حکومت کرتا ہے عملاً دونوں کا کردار یکساں طرز کا ہے ۔

 
کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی

مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ کیفیت یہ ہے کہ ہر شخص انتشار و بے یقینی کا شکار ہو کر اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے ۔ کسی کو اجتماعی مفاد سے واسطہ نہیں ۔ اس کی قطعی وجہ یہی ہے کہ جس شخص کے ہاتھ میں اقتدار ہے وہ جسے قافلہ سالاری کے فراءض انجام دینے چاہیں وہی اپنے بے عملی اور ذاتی مفاد کے سبب قوم کی رہنمائی کا حامل نہیں ہے ۔ ایسے شخص کا قول و فعل اور کردار دوسروں کو کس طرح متاثر کر سکتا ہے جو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔