Please wait..

رباعی (11)

 
نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری
رہا صوفی، گئی روشن ضمیری
 
خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
نہیں ممکن امیری بے فقیری

مطلب: اب صورت احوال یہ ہے کہ مرد مومن میں بھی وہ صلاحتیں باقی نہیں رہیں جو اس کا طرہ امتیاز تھیں ۔ یہی کیفیت صوفی اور درویش کی ہے کہ اس میں اور تو سب کچھ ہے روشن ضمیری کا فقدان ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر رب ذوالجلال سے اسی قلب و نظر کی استدعا کر جو ذاتی صلاحیتوں کے منبع ہوتی ہیں ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ درویش صفتی ہی حقیقی امارت اور قیادت کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔

رباعی (12)

 
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی 
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
 
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی

مطلب: خودی وہ جذبہ ہے جس کا عرفان حاصل ہو جائے تو انسان کو آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی کے اوصاف حسنہ کی جھلک نظر آ جاتی ہے ۔ داخلی اور باطنی سطح پر رب ذوالجلال کے جلوے اس پر نمایاں ہو جاتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ زمین ، آسمان، کرسی اور عرش غرض تمام عناصر خودی کی زد میں ہیں اور کوئی شے بھی اس سے باہر نہیں ۔

رباعی (13)

 
نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں
خرد کھوئی گئی ہے چار سُو میں
 
نہ چھوڑ اے دل فغانِ صبحگاہی
اماں شاید ملے اللہ ہُو میں

مطلب: معاملہ یہ ہے کہ اس دنیا کے رنگین نظاموں سے انسان مسحور ہو کر رہ گیا ہے اسی طرح اس کی عقل و دانش بھی انتشار کا شکار ہو چکی ہے ۔ اس کیفیت میں تیرے لیے یہ بات لازم ہو گئی ہے کہ علی الصبح بیدا ہو کر خدا سے دعا مانگ اور اللہ ھو کا ورد کر شاید اسی طرح تجھے سکون قلب حاصل ہو جائے ۔

رباعی (14)

 
جمالِ عشق و مستی نَے نوازی
جلالِ عشق و مستی بے نیازی
 
کمالِ عشق و مستی ظرفِ حیدر 
زوالِ عشق و مستی حرفِ رازی

مطلب: شاعری کے نغموں کی وساطت سے لوگوں تک پیغام خداوندی کی ترسیل کو عشق و مستی کے جمالی شان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح عشق و مستی میں دنیا اور اس کے جملہ مسائل سے بے نیازی کو اس کی جلالی شان کہہ سکتے ہیں ۔ اب رہا عشق و مستی کا کمال تو یہ مولائے کائنات علی المرتضیٰ کی ذات والا صفات اور کردار میں نظر آ جائے گا ۔ جب کہ عشق و مستی کا زوال امام رازی کے اقوال میں موجود ہے ۔

رباعی (15)

 
وہ میرا رونق محفل کہاں ہے
مری بجلی مرا حاصل کہاں ہے
 
مقام اس کا ہے دل کی خلوتوں میں
خدا جانے مقام دل کہاں ہے

مطلب: اس رباعی میں اقبال نے سوالیہ انداز میں اپنے محبوب حقیقی کو رونق محفل کی طرح پیش کیا ہے ۔ یہاں محبوب سے مراد رب ذوالجلال ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مفروضہ اپنی جگہ درست کہ خدا ہر جگہ موجود ہے ۔ اس کا وجود بجلی کی رو کے مانند ہے جو نظر نہیں آتی لیکن اپنے وجود کا احساس ضرور دلاتی ہے ۔ وہ یقینا خدا ہے لیکن اب تک اس کے بارے میں یہ علم نہ ہو سکا کہ اس کا مسکن کونسا ہے ۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ وہ دل کی خلوتوں میں رہتا ہے تا ہم آج تک یہ راز آشکار نہیں ہو سکا کہ دل کے جس مقام پر خدا کا مسکن ہے وہ مقام کہاں ہے ۔ ابھی تک یہ معاملہ سوالیہ نشان کے مانند ہے ۔