Please wait..

فلسفہ و مذہب

 
یہ آفتاب کیا، یہ سپہرِ بریں ہے کیا
سمجھا نہیں تسلسل شام و سحر کو میں

معانی: فلسفہ اور مذہب کے مابین کیا فرق ہے ۔ اپنے مقاصد کے اعتبار سے یہ تقابلی سطح پر تضادات کے شکار کیوں ہیں ۔ ان کے مقاصد میں کیا فرق ہے ۔ ان کا تجزیہ کیا جائے تو جاننے میں بالعموم زیادہ قباحت محسوس نہ ہو گی کہ فلسفہ اصولی طور پر اشیاء کی تخلیق اور ان کے وجود کی غرض و غایت کے بارے میں تعقل اور استدلال کے حوالے سے جاننے کا علم ہے جب کہ خالص عقیدے ،یقین اور ایمان ایک طرح سے مذہب کے جزائے ترکیبی ہیں ۔ اقبال نے اپنی اس نظم میں جس خوبی کے ساتھ فلسفہ اور مذہب کے مابین جو حد فاصل ہے اس کا تجزیہ کیا ہے وہ انتہائی فکر انگیز ہے ۔ ان کے نزدیک بو علی سینا فلسفیوں کے نمائندہ ہیں اور مولانا روم مذہب کے ترجمان ہیں اس نظم کے چوتھے شعر میں انھوں نے اس جانب اشارہ بھی کیا ہے ۔ اس پس منظر کے حوالے سے یہ عجیب بات دیکھنے میں آتی ہے کہ اجتماعی سطح پر ان اشعار میں ایک تذبذب کی کیفیت موجود ہے اور ان کا شاعر ایک سوالیہ نشان کی صورت میں دوراہے پر کھڑا ہے ۔ فرماتے ہیں یہ سورج جو علی الصبح برآمد ہوتا ہے اور شام کو غروب ہو جاتا ہے اور یہ آسمان جو کرہ ارض پر چھایا ہوا ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی حقیقت کیا ہے یہی کیفیت شام و سحر کے مابین جو سلسلہ ہے اس کی ہے ۔

 
اپنے وطن میں ہوں کہ غریب الدیار ہوں
ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و در کو میں

معانی: غریب الدیار: وطن سے دور ۔ دشت و در: جنگل ۔
مطلب: یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس مقام پر جہاں میں بود و با ش اختیار کیے ہوں اپنے وطن سے تعبیر کروں یا یہ سمجھوں کہ میرا کوئی وطن اور گھر نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے صحرا اور گھر مجھے ایک انجانے خوف میں مبتلا رکھتے ہیں ۔

 
کھلتا نہیں مرے سفرِ زندگی کا راز
لاؤں کہاں سے بندہَ صاحبِ نظر کو میں

مطلب: ہر چند کہ میرا سفر جاری ہے اور زندگی کی جو مسافت ہے اسے طے کر رہا ہوں لیکن اس کے اغراض و مقاصد سے بے بہرہ ہوں ۔ دکھ تو یہ ہے کہ کوئی ایسا صاحب فکر رہنما بھی نہیں ملتا جو حقائق سے روشناس کرا سکے اور یہ باور کر ا سکے کہ زندگانی کا بنیادی مقصد کیا ہے اور میرے وجود کی غرض و غایت کیا ہے ۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں فلسفیوں کی سوچ ایک سوالیہ نشان میں ڈھل جاتی ہے ۔

 
حیراں ہے بو علی کہ میں آیا کہاں سے ہوں
رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کدھر کو میں

معانی: بو علی: مسلمان فلسفی، بو علی سینا ۔ رومی: مولانا جلال الدین رومی ۔
مطلب: چنانچہ جب ممتاز فلسفی حکیم بو علی سینا کے تصورات پر نظر پڑتی ہے تو انسانی وجود اور اس کی غرض و غایت کے سلسلے میں کوئی واضح نقطہ نظر نہیں رکھتے بلکہ اس مسئلے پر حیران و پریشان نظر آتے ہیں ۔ سو وہ فلسفی اور دانشور خود ہی حیرانی اور تذبذب کا شکار ہو وہ کسی کی رہنمائی کیسے کر سکتا ہے ۔ دوسری طرف ممتاز دانشور اور ممتاز شاعر مولانا روم ہیں وہ خود صحیح راہ اور حقیقی منزل کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں سو ان سے یہ توقع عبث ہے کہ حتمی سطح پر عقدہ کشائی کر سکیں ۔

 
جاتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

معانی: راہرو: مسافر ۔ راہبر: راستہ بتانے والا ۔
مطلب: نظم میں شامل یہ شعر مرزا غالب کا ہے اور اقبال نے اپنی مخصوص سوچ کے باوجود تھوڑے سے اجتہاد کے ساتھ اسی شعر سے رہنمائی حاصل کی ہے ۔ ساتھ ہی اس کے ذریعے وہ ایک منطقی نتیجے پر بھی اس طرح پہنچتے ہیں کہ منزل تک پہنچنے کے لیے جو راہرو سامنے آتا ہے اس کے ساتھ تھوڑی سی مسافت ضرور طے کر لیتا ہوں تاہم جلد ہی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک میں گم کردہ راہ ہوں ۔