Please wait..

نگاہ شوق

 
یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کہ ذرہ ذرہ میں ہے ذوقِ آشکارائی

معانی: نگاہ شوق: شوق کی نظر یا عشق بھری نگاہ ۔ ضمیر: دل، باطن ۔ ذوق آشکارائی: ظاہر ہونے کی لذت ۔ کائنات: جہان ۔
مطلب: کائنات کے باطن یا دل میں جو کچھ بھی موجود ہے یہ اسے چھپا کر نہیں رکھتی بلکہ ظاہر کرتی رہتی ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ کائنات کے ایک ایک ذرے میں اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی لذت اور چاشنی موجود ہے ۔

 
کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبارِ جہاں
نگاہِ شوق اگر ہو شریکِ بینائی

معانی: نگاہ شوق: عشق بھری نظر ۔ بینائی: ظاہری آنکھ ۔
مطلب: ظاہری آنکھ سے تو اس کائنات کو یا جہان کو ہر کوئی دیکھتا ہے اور اسے جو کچھ ظاہر میں ہے وہی کچھ نظر آتا ہے ۔ اگر ظاہری نظر میں عشق کی نظر بھی شامل ہو جائے تو پھر جہان کا کاروبار کچھ اور ہی نظر آتا ہے ۔ یعنی کائنات کے باطن میں جو کچھ ہے وہ بھی اس کے سامنے آ جاتا ہے ۔

 
اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند
ہوئے جہاں میں سزاوارِ کارفرمائی

معانی : فرزند: بیٹے، نوجوان ۔ محکوم قوم: غلام قوم ۔ سزاوار: لائق ۔ کارفرمائی: حکمرانی ۔
مطلب: جب بھی کسی غلام قوم کے نوجوانوں نے اپنی ظاہری بینائی میں عشق کی نگاہ شامل کی ہے تو وہ دنیا میں غلامی سے نکل کر حکمرانی کے لائق بن گئے ہیں ۔

 
اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری
اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی

معانی: قاہری و جباری: یہ اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی ناموں قاہر اور جبار کی صفت ہیں ۔ بندہ بھی چونکہ صفات باری تعالیٰ کا مظہر ہے اس لیے یہ صفات اس میں بھی موجود ہیں ۔ ا س کا قاہر ہونا دوسروں پر خصوصاً کافروں پر دبدبہ ڈالنا یا ان پر غالب آنا ہے ۔ جباری بھی اسی قسم کے رعب اور جلال کے معنی رکھتی ہے ۔ دلبری: محبوبی ۔ رعنائی: زیبائی ۔
مطلب: اسی نگاہ شوق کی بدولت خدا کے بندے میں باطل کے ساتھ مقابلے کے وقت قہر، جبر، ہیبت اور دبدبہ کی شان پیدا ہو جاتی ہے اور اسی نگاہ شوق سے جب اس کا واسطہ اپنوں سے یعنی حق پرستوں سے پڑتا ہے تو وہاں یہ نگاہ اپنے اندر محبوبی اورزیبائی کی شان پیدا کر لیتی ہے ۔ یعنی بندہَ مومن جب نگاہ عشق پیدا کرتا ہے تو کافروں کے لیے اس کی نظر قاہری و جباری والی اور مسلمانوں کے لیے اس کی نظر دلبری اور رعنائی والی ہوتی ہے ۔

 
اسی نگاہ سے ذرہ کو جنوں میرا
سکھا رہا ہے رہ و رسمِ دشت پیمائی

معانی: رہ و رسم: طریقے اور رسمیں ۔ دشت پیمائی: بیابان ناپنا یا عبور کرنا ۔ جنوں : انتہائی عشق ۔
مطلب: شاعر کہتا ہے کہ اسی نظر سے جس میں عشق شامل ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے اس کی وجہ سے میرے انتہائی عشق نے ذروں کے اندر ایسے طور طریقے پیدا کر دیئے ہیں کہ وہ بیابان طے کر سکتے ہیں ۔ یعنی میں نے اپنی شاعری سے بے ہمت اور بے طاقت لوگوں کے اندر مشکلات سے ٹکرانے اور ان پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا کر دی ہے ۔

 
نگاہِ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو
ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی

معانی: وجود: ہستی ۔ قلب: دل ۔ رسوائی: ذلت ۔ میسر ہونا:حاصل ہونا ۔ نگاہِ شوق: عشق کی نظر ۔
مطلب: اگر تیری ہستی کو عشق کی وہ نظر حاصل نہیں ہے جس کی صفات کا مذکورہ بالا شعروں میں ذکر ہوا ہے تو تو سمجھ لے کہ تیری ہستی تیرے دل اور تیری نظر یعنی تیرے ظاہر اور تیرے باطن دونوں کے لیے ذلت کا موجب ہے ۔