Please wait..

کنارِ راوی

 
سکوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی
نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی

معانی: راوی: پنجاب کا مشہور دریا جو لاہور سے بھی گزرتا ہے ۔ محو سرود: گانے میں مشغول ۔
مطلب: اس نظم کا منظر نامہ دریائے راوی کا کنارہ ہے ۔ اس مقام پر کھڑے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ ہر جانب شام کا سکوت طاری ہے ۔ لیکن دریائے راوی کی موجوں کا شور نغمگی کا آئینہ دار ہے ۔ اس لمحے میرے دل کی جو کیفیت ہے اس کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ پوچھو ۔

 
پیامِ سجدہ کا یہ زیر و بم ہوا مجھ کو
جہاں تمام سوادِ حرم ہوا مجھ کو

معانی: سجدے کا پیام: مراد اللہ کے حضور جھکنے کا اشارہ ۔ زیر و بم: مراد لہروں کا ابھرنا گرنا ۔ جہاں کائنات ۔ سوادِ حرم: کعبہ کا نواح، مراد سجدوں کی جگہ ۔
مطلب: دریا کی موجوں کا زیر و بم میرے لیے تو سجدے کا پیغام بن گیا ہے ۔ میں تو اس عالم جذب میں ہوں کہ ساری دنیا مجھے خانہ کعبہ اور اس کے گردوپیش سے ہم آہنگ نظر آتی ہے ۔

 
سرِ کنارہَ آبِ رواں کھڑا ہوں میں
خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں

معانی: سرِ کنارہ: کنارے پر ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ میں بہتے ہوئے اس دریا کے کنارے پر کھڑا ہوں تا ہم اپنے خیالات میں اس قدر مگن ہوں کہ یہ بھی نہیں جانتا کہاں کھڑا ہوں ۔

 
شرابِ سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامنِ شام
لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام

معانی: پیرِ فلک: مراد پرانا آسمان ۔ دست رعشہ دار: کانپتا ہوا ہاتھ ۔
مطلب: ان لمحات میں شفق کی سرخی شراب کی مانند شام کے دامن کو رنگیں کر گئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قرن ہا قرن سے گردش میں رہنے والے بوڑھے آسمان کے رعشہ زدہ ہاتھ میں شراب کا یہ جام آ گیا ہے ۔

 
عدم کو قافلہَ روز تیز گام چلا
شفق نہیں ہے، یہ سورج کے پھول ہیں گویا

معانی: عدم: فنا، نیستی ۔ روزِ تیز گام: تیز تیز قدم اٹھانے والا دن ۔ سورج کے پھول : مراد مردہ سورج کی ہڈیوں کی راکھ، ڈوبنے والا سورج ۔
مطلب: دن کا قافلہ عدم کی جانب تیز رفتاری کے ساتھ رواں دواں ہے ۔ مراد یہ ہے کہ آمد شام کے ساتھ دن ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ اس لمحے یہ شفق پھولی ہوئی ہے اس کے لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس کی نوعیت تو سورج کے پھولوں کی طرح ہے یعنی سورج کا سفر ختم ہو گیا ہے ۔

 
کھڑے ہیں دور وہ عظمت فزائے تنہائی
منارِ خواب گہِ شہسوارِ چغتائی

معانی: عظمتِ فزائے تنہائی: اکیلے پن کی بڑائی میں اضافہ کرنے والے ۔ خواب گہِ شہسوارِ چغتائی: مراد مقبرہ جہانگیر بادشاہ ۔
مطلب: ا س منظر نامے میں شہنشاہ جہانگیر کے مقبرے کے مینار اپنی عظمت و شان کے ساتھ اس کنج تنہائی میں ایستادہ ہیں ۔ یہی وہ مقبرہ ہے جہاں شہنشاہ جہانگیر ابدی نیند سویا ہوا ہے ۔

 
فسانہَ ستمِ انقلاب ہے یہ محل
کوئی زمانِ سلف کی کتاب ہے یہ محل

معانی: ستم: ظلم، سختی ۔ انقلاب: تبدیلیوں کی حالت ۔
مطلب: یہ مقبرہ دیکھا جائے تو انقلابات زمانہ اور ان کے ظلم و ستم کا مظہر ہے ۔ یہی نہیں بلکہ زمانہ ماضی کی تاریخ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔

 
مقام کیا ہے، سرودِ خموش ہے گویا
شجر، یہ انجمنِ بے خروش ہے گویا

معانی: سرودِ خموش: ایسا گیت جس میں آواز نہ ہو ۔ شجر: درخت ۔ انجمن بے خروش: ایسی محفل جس میں شور نہ ہو ۔
مطلب: یہ مقبرہ تو حقیقت میں ایک خاموش نغمے کی طرح ہے اور یہاں جو درخت موجود ہیں وہ ایسی محفل کی طرح ہیں جہاں کسی ہنگامے کا عمل دخل نہ ہو ۔

 
رواں ہے سینہَ دریا پہ اک سفینہَ تیز
ہوا ہے موج سے ملاح جس کا گرمِ ستیز

معانی: سینہَ دریا: مراد پانی کی سطح ۔ سفینہ: کشتی ۔ ملاح کشتی چلانے والا ۔ گرمِ ستیز: لڑنے، مقابلہ کرنے میں مصروف ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ سامنے دریا میں ایک تیز رو کشتی رواں دواں نظر آ رہی ے جس کا ملاح لہروں اور تند و تیز موجوں سے بچاتا اسے منزل مقصود کی جانب لیے جا رہا ہے ۔

 
سبک روی میں ہے مثلِ نگاہ یہ کشتی
نکل کے حلقہَ حدِ نظر سے دور گئی

معانی: سبک روی: تیز چلنا ۔ مثلِ نگاہ: نگاہ کی طرح ۔ حلقہ: دائرہ ۔ حدِ نظر: نظر کی اخیر ۔
مطلب: انسانی نگاہ کی رفتار جس قدر تیز ہے اسی رفتار سے آگے بڑھتی ہوئی کشتی بالاخر نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے ۔

 
جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی
ابد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی

معانی: جہازِ زندگیِ آدمی: مراد انسانی زندگی ۔ ابد: ہمیشگی ۔
مطلب: دریائے راوی کے کنارے اور اس کے گردوپیش کا مشاہدہ کرتے ہوئے اقبال اسے انسانی وجود سے یوں مربوط کرتے ہیں کہ جس طرح یہ کشتی دریائے راوی میں تیز رفتاری کے ساتھ رواں دواں ہے بالکل یہی کیفیت انسان کی ہے ۔

 
شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا
نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا

معانی: شکست: ٹوٹنے کا عمل ۔
مطلب: بے شک یہ ایک بڑے تخلیق کار کا کمال ہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے مشاہدات اور تجربات کے بطن سے بعض ایسی مطلق حقیقتیں برآمد کرتا ہے جن تک کسی دوسرے کی رسائی بلاشک و شبہ نہیں ہوتی چنانچہ یہی امر اقبال کی عظمت اور بڑائی کا بین ثبوت ہے ۔