دل
قصہَ دار و رَسن بازیِ طفلانہَ دل التجائے اَرِنی سرخیِ افسانہَ دل
معانی: قصہ دار و رسن: سولی اور رسی کی داستان، مراد حضرت حسین بن منصور حلاج کو انا الحق کہنے پر پھانسی دیے جانے کا واقعہ ۔ بازیَ طفلانہ: بچوں کا کھیل، مراد بہت آسان کام ۔ اَرِنی: مجھے اپنا جلوہ دکھا، حضرت موسیٰ کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ سرخی: مضمون کا عنوان ۔
مطلب: اقبال اس نظم میں دل کے محاسن و خصاءص بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے لیے اپنی جان پر کھیل جانا بے شک ناممکنات میں سے ہے ۔ لیکن جو اہل دل ہیں یعنی عشاق ان کے لیے یہ عمل بچوں کے کھیل سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ۔ دل کی ماہیت کیا ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بس اتنا ہی ہے کہ خدائے عزوجل کا جلوہ دیکھنے کی خواہش اس داستان کا عنوان بنتا ہے ۔
یارب اس ساغرِ لبریز کی مے کیا ہو گی جادہَ مُلکِ بقا ہے خطِ پیمانہَ دل
معانی: جادہ: راستہ ۔ ملکِ بقا: ہمیشہ باقی رہنے والی سلطنت ۔ خط پیمانہَ دل: مراد دل کی رگیں جن میں خون دوڑتا ہے ۔
مطلب: اور ایسا دل جو عشق کی شراب سے لبریز ہو سوچیے تو سہی اس کی قیمت کیا ہو گی کہ یہ تو انسان کے لیے بقائے دوام کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مراد یہ کہ انسان اگر دل کو اپنا رہبر بنا لے تو جذبہ عشق اسے بقائے دوام عطا کر دیتا ہے ۔
ابرِ رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یارب جل گئی مزرعِ ہستی تو اُگا دانہَ دل
معانی: ابرِ رحمت: مہربانی کی بارش کرنے والا بادل ۔ مزرعِ ہستی: زندگی، وجود کی کھیتی ۔
مطلب: دراصل اقبال کے نزدیک عشق ایسا جذبہ ہے جس کا تعلق دل سے ہے ۔ نہ جانے یہ ابر رحمت تھا یا عشق کی بجلی کہ آخر الذکر کا کام جلانا اور فنا کر دینا ہے جب کہ ابر رحمت تو تخلیق کی علامت ہے ۔ اس شعر میں کہا گیا ہے کہ عشق کے جذبے نے تو زندگی کو فنا کر کے رکھ دیا تھا پھر یہی جذبہ ابر رحمت کی صورت میں ظاہر ہوا اور یوں دل کی تخلیق وجود میں آئی ۔
حُسن کا گنجِ گراں مایہ تجھے مل جاتا تو نے فرہاد! نہ کھودا کبھی ویرانہَ دل
معانی: گنجِ گراں مایہ: بہت قیمتی خزانہ ۔ فرہاد: شیریں کا عاشق ۔
مطلب: اقبال نے یہاں فرہاد سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ اگر تو دل کی گہرائیوں میں اترنے کی صلاحیت رکھتا تو اپنے عشق میں یقیناً کامیاب ہو جاتا پھر تجھے مشروط بنیاد پر جوئے شیر لانے کے لیے پہاڑ کو کھودنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی ۔
عرش کا ہے، کبھی کعبے کا ہے دھوکا اس پر کس کی منزل ہے الہٰی ! مرا کاشانہَ دل
معانی: عرش: تخت، مراد آسمان سے بھی اوپر نور کی دنیا ۔ دھوکا: شک ۔ کاشانہ: گھر، آشیانہ، محل ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال عالم حیرت میں کہتے ہیں کہ کبھی تو دل پر عرش کا دھوکا ہوتا ہے اور کبھی یہ کعبہ کے مانند لگتا ہے ۔ دوسرے مصرع میں وہ رب ذوالجلال سے استفسار کرتے ہیں کہ تو ہی مجھ پر یہ راز ظاہر کر دے کہ میرا دل آخر کس فرد کی آماجگاہ ہے اس شعر سے باسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاعر نے یہ اشارہ ذات خداوندی کی جانب کیا ہے کہ وہی انسان کے دل میں مقیم ہوتا ہے ۔
اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سودا اپنا دل کسی اور کا دیوانہ، میں دیوانہَ دل
معانی: سودا: دیوانگی، عشق کی مستی ۔ دیوانہ: مراد عاشق ۔
مطلب: اقبال کے اس شعر میں تغزل پوری انتہا پر پہنچا ہوا ہے ۔ فرماتے ہیں دل اور میں عملی سطح پر دونوں ہی مجنون اور سودائی ہیں تا ہم فرق اتنا ہی ہے کہ یہ دل تو کسی اور کا دیوانہ ہے جب کہ میں دل پر فریفتہ ہوں ۔ مقصد یہ ہے کہ میرا دل کائنات کو پیدا کرنے والے کے عشق میں سرشار ہے لہذا اس پر میرا فدا ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ عشق کا یہ تعلق با الواسطہ ہے ۔
تو سمجھتا نہیں اے زاہدِ ناداں اس کو رشکِ صد سجدہ ہے اک لغزشِ مستانہَ دل
معانی: رشک صد سجدہ: سیکڑوں سجدوں سے بھی بڑھ کر ۔ لغزشِ مستانہ: عشق کی مستی میں گر گر کر اٹھنا ۔
مطلب: وہ کہ جسے زہد کا دعویٰ ہے وہ اس حقیقت کا ادراک کیسے کر سکے گا ۔ عشق کی ایک لغزش عملی سطح پر سینکڑوں سجدوں سے افضل و اعلیٰ ہے ۔
خاک کے ڈھیر کو اِکسیر بنا دیتی ہے وہ اثر رکھتی ہے خاکسترِ پروانہَ دل
معانی: خاک کا ڈھیر: معمولی شے، مراد انسان ۔ اکسیر: مراد اعلیٰ مرتبہ والی، والا ۔ خاکسترِ پروانہ: جلے ہوئے پتنگے کی راکھ ۔
مطلب: عشق میں جلنے والے دل کی راکھ تو ایک ایسی اکسیر کی حیثیت رکھتی ہے جو مٹی کے ڈھیر پر ڈال دی جائے تو اس کو بھی سونا بنا دے ۔ مراد یہ کہ عشق میں کیفیت ہے جو انسان کو بلند مدارج بخشتی ہے ۔
عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے
معانی: برق: آسمانی بجلی ۔ نخل: درخت ۔ ہرا ہونا: سرسبز ہونا، پھلنا پھولنا ۔
مطلب: عشق کے دام میں جو پھنس جاتا ہے اس کے باوجود وہ خود کو آزاد سمجھتا ہے ۔ اور اگر اسے ایک پودا تصور کر لیا جائے اور اس پر بجلی گر جائے تو دل خاک ہونے کی بجائے سرسبز ہو جاتا ہے ۔