داغ
عظمتِ غالب ہے اک مُدت سے پیوندِ ز میں مہدیِ مجروح ہے شہرِ خموشاں کا مکیں
معانی: داغ: اردو کے مشہور شاعر، نواب مرزا خان 1831 میں دہلی میں پیدا ہوئے 1905 میں بمقام حیدر آباد دکن فوت اور دفن ہوئے ۔ عظمت: بڑائی ۔ غالب: اردو فارسی کے مشہور شاعر اسد اللہ خان غالب(1797-1869) ۔ مہدیِ مجروح: غالب کے عزیز شاگرد ۔ دہلی کے رہنے والے تھے ۔ 1904 میں فوت ہوئے ۔ پیوند ز میں : مراد زمین میں دفن ۔ شہر خموشاں : قبرستان ۔
مطلب: عملی سطح پر یہ نظم ایک مرثیے کی حیثیت رکھتی ہے جو اقبال نے اپنے استاد اور صاحب طر شاعر نواب مرزا خان داغ کے سانحہ ارتحال پر لکھا تھا ۔ فرماتے ہیں مرزا اسد اللہ خان غالب کو ایک مدت ہوئی وفات پا چکے ۔ اس کے باوجود ان کی شاعرانہ عظمت ابھی تک زندہ و باقی ہے ۔ اسی طرح میرزا غالب کے ایک اہم شاگرد جن کا تعلق دہلی سے تھا وہ بھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں ۔
توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیر چشمِ محفل میں ہے اب تک کیفِ صہبائے امیر
معانی: مینا توڑ ڈالی: مراد اس دنیا سے اٹھا لیا ۔ امیر: اردو کے مشہور شاعر امیر احمد مینائی، امیر تخلص ۔ کیفِ صہبائے امیر: امیر مینائی کی شراب یعنی شاعری کی مستی، نشہ ۔
مطلب: اس طرح موت کا فرشتہ میر تقی میر کی روح کو بھی چاٹ گیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج بھی ان کی شاعری کا کیف و سرور باقی ہے ۔
آج لیکن ہم نوا! سارا چمن ماتم میں ہے شمعِ روشن بجھ گئی، بزمِ سخن ماتم میں ہے
معانی:سارا چمن: مراد پورا ملک ۔ شمعِ روشن: مراد داغ دہلوی ۔ بزمِ سخن: شاعری کی محفل ۔
مطلب: لیکن آج نواب میرزا داغ کی وفات حسرت آیات کے سبب چمن شاعری کا ماتم کدہ بنا ہوا ہے ۔ اس لیے کہ ان کی شخصیت بزم شاعری میں ایک روشن شمع کی حیثیت رکھتی تھی جو بجھ کر رہ گئی ہے ۔
بلبلِ دلّی نے باندھا اس چمن میں آشیاں ہم نوا ہیں سب عنادلِ باغِ ہستی کے جہاں
معانی: بلبلِ دلی: مراد داغ جو ایک روشن فکر شاعر تھا ۔ عنادل: جمع عندلیب، بلبلیں ۔ باغِ ہستی: زندگی کا باغ ۔
مطلب: داغ کا وجود تو ایسا تھا جو باغوں میں چہکتے ہوئے بلبل کا ہوتا ہے دہلی کا یہ صاحب اسلوب شاعر افسوس کہ اسی قبرستان میں پہنچ گیا جہان دوسرے بڑے شعراء دفن تھے ۔
چل بسا داغ، آہ! میت اس کی زیبِ دوش ہے آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے
معانی: چل بسا: مر گیا ۔ زیبِ دوش: کندھوں کے لیے سجاوٹ کا باعث ۔ جہان آباد: دہلی کا پرانا نام ۔
مطلب: حیف در حیف کہ استاد داغ بھی چل بسے اور ہم لوگ ان کی میت کو کاندھوں پر اٹھا کر مرحوم کی آخری قیام گاہ تک پہنچا آئے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ دلی کے یہ آخری صاحب طرز و اسلوب شاعر تھے جو وفات پا کر آج ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے ۔
اب کہاں وہ بانکپن وہ شوخیِ طرزِ بیاں آگ تھی کافورِ پیری میں جوانی کی نہاں
معانی:بانکپن: مراد انوکھا پن ۔ شوخی طرزِ بیاں : شعر کہنے کا ایسا انداز جس مین چلبلا پن ہو ۔ کافورِ پیری: مراد بڑھاپے کی ٹھنڈک ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ نواب مرزا داغ کی وفات کے بعد اب نہ تو شاعری میں انوکھا پن رہا نہ طرز بیان کی شوخی رہی ۔ ضعیفی کے عالم میں بھی وہ عالم شباب کی زندہ اور پرجوش شاعری کرتے تھے ۔ یعنی ان کے کلام میں وہی شوخی اور تازگی تھی جو عہد جوانی کی تخلیقات کا حصہ ہے ۔
تھی زبانِ داغ پر جو آرزو ہر دل میں ہے لیلیِ معنی وہاں بے پردہ، یاں محمل میں ہے
معانی: زبانِ داغ: مراد داغ کی شاعری ۔ لیلیِ معنی: مراد شعروں میں پیدا کیے گئے عمدہ مضامین ۔ بے پردہ: مراد ذہن سے باہر شعر کی صورت میں ۔ محمل میں ہونا: مرا د ذہن سے باہر شعر کی صورت میں ۔
مطلب: داغ تو ایسے قادر الکلام شاعر تھے کہ ان کی خیال افروز تخلیقات کی آرزو ہر شعر کہنے والے کے دل میں ہے کہ ہم بھی اس معیار کے شعر کہہ سکتے ۔ جو باتیں لوگ اپنے دل میں رکھتے تھے وہ داغ کی شاعری میں نمایاں ہو کر بالکل سامنے آ جاتی تھیں ۔
اب صبا سے کون پوچھے گا سکوتِ گُل کا راز کون سمجھے گا چمن میں نالہَ بلبل کا راز
معانی: سکوتِ گل: پھول کی خاموشی ۔ نالہَ بلبل: مراد بلبل کا چہکنا ۔
مطلب: وہ تو ایسے تخلیق کار تھے پھولوں کی خامشی میں جو راز پوشیدہ ہے اس کے بارے میں باد صبا سے استفسار کیا کرتے تھے ۔ اسی طرح بلبل جس طرح باغوں میں نالہ و فغاں کرتی ہے اس کا پس منظر مرزا داغ کے سوا اور کس پر منکشف ہو سکے گا ۔
تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
معانی: فکر کی پرواز: شاعری میں تخیل کی بلندی ۔ طائر: پرندہ ۔ نشیمن: گھونسلا ۔
مطلب: وہ تو ایسے شاعر تھے جو اپنی تخلیقات میں حقیقتوں کے اسرار و رموز سے کبھی غافل نہ ہوتے تھے ۔ اگر انہیں پرندہ تصور کر لیا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پرواز کے دوران بھی نظراپنے نشیمن پر رہتی تھی ۔
اور دکھلائیں گے مضموں کی ہمیں باریکیاں اپنے فکرِ نکتہ آرا کی فلک پیمائیاں
معانی: مضمون کی باریکیاں : شعری مضمونوں ، خیالات کی گہرائیاں ۔ فکر نکتہ آرا: ایسا تخیل جو گہرے مضامین پیدا کرے ۔ فلک پیمائیاں : آسمان پر پرواز کی حالت ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں ایسے شاعر اور بھی پیدا ہوں گے جن کی شاعرانہ فکر کی باریکیاں اہل ذوق کے مشاہدے میں آئیں گی ان کی فکر میں بے شک بلندی بھی ہو گی اور ندرت بھی ۔
تلخی دوراں کے نقشے کھینچ کر رلوائیں گے یا تخیل کی نئی دنیا ہمیں دکھلائیں گے
معانی: تلخی دوراں :زمانے کی تلخی ۔ نقشہ کھینچنا: لفظوں میں تصویر کھینچنا ۔ تخیل کی نئی دنیا مراد نئے نئے خیالات ۔
مطلب: یہ لوگ اپنے عہد کے آشوب اور نامساعد حالات کا تذکرہ کر کے ہمیں افسردہ بھی کریں گے اس کے علاوہ ان کے تخیل میں جو ایک نئی دنیا آباد ہے اس کا منظر نامہ بھی حسب استطاعت پیش کریں گے ۔
اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی سیکڑوں ساحر بھی ہوں گے، صاحبِ اعجاز بھی
معانی: بلبلِ شیراز: مراد شیخ سعدی شیرازی، شیراز میں دفن ہیں ۔ صاحبِ اعجاز: انسانی بس سے باہر کے کام کرنے والا ۔
مطلب: بے شک اس دنیا میں آئندہ بھی حافظ شیرازی جیسے بلند پایہ شاعر جنم لیں گے ۔ جنہیں بلاشبہ صاحب اعجاز شاعر قرار دیا جائے گا ۔
اٹھیں گے آزر ہزاروں شعر کے بت خانے سے مے پلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے
معانی: آزر: اپنے زمانے کے مشہور بت ساز ۔ اٹھیں گے: پیدا ہوں گے ۔ شعر کا بت خانہ: مراد شاعری ۔
مطلب: اگر بزم شعر کو ایک بتخانہ تصور کر لیا جائے تو اس میں آزر جیسے کئی صاحب فن بت تراش بھی پید ا ہوں گے ۔ اگر اس بزم کو ایک میکدہ سمجھ لیا تو کئی نئے ساقی اپنے پیمانوں سے پینے والوں کو مدہوش کریں گے ۔
لکھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت ہوں گی اے خوابِ جوانی! تیری تعبیریں بہت
معانی: کتاب دل: مراد دل کے جذبے ۔ خواب جوانی: مراد جوانی کی خواہشیں ۔
مطلب: اس میں کوئی شک نہیں کہ آئندہ آنے والے شعراء اپنے اپنے انداز میں کتاب دل کی تفسیریں پیش کریں گے اور جوانی کو اگر خواب سمجھ لیا جائے تو یہی لوگ اس کی تعبیریں بھی کریں گے ۔
ہُو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون اٹھ گیا ناوکِ فگن، مارے گا دل پر تیر کون
معانی: تصویر کھینچیا: مراد لفظوں میں بیان کرنا ۔ اٹھ گیا ۔ مر گیا ۔ ناوک فگن: تیر چلانے والا ۔ دل پر تیر مارنا: مراد دل کش شعروں سےمتاثر کرنا ۔
مطلب: تاہم دیکھنا یہ ہے کہ عشق و محبت کا حقیقی منظر نامہ بھی کوئی پیش کر سکے گا داغ ہی بلاشک و شبہ ایسے تیر انداز کی حیثیت رکھتے تھے جن کا نشانہ دیکھا جائے تو براہ راست دہی ہی ہوتا تھا ۔
اشک کے دانے زمینِ شعر میں بوتا ہوں میں تو بھی رو اے خاکِ دلی داغ کو روتا ہوں میں
معانی: زمین شعر میں بونا: شعر کی صورت میں دکھ کا اظہار کرنا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ استاد کی وفات کا سانحہ ایسا دل خراش ہے کہ اس کے ردعمل کے طور پر اشعار میں اپنے آنسو کاشت کر رہا ہوں ۔
اے جہان آباد ، اے سرمایہَ بزم سخن ہو گیا پھر آج پامالِ خزاں تیرا چمن
معانی: سرمایہ: دولت، پونجی ۔ بزم سخن: شعر و شاعری کی محفل ۔ پامال: مراد تباہ ۔
مطلب : اے دہلی تو جو اہل سخن کے لیے عظیم سرمایے کی حیثیت رکھتی ہے کس قدر الم انگیز یہ حقیقت ہے کہ مرزا داغ کی رحلت سے تیرا یہ بھرا ہوا چمن پامال اور ویران ہو کر رہ گیا ہے ۔
وہ گلِ رنگیں ترا رخصت مثالِ بو ہوا آہ! خالی داغ سے کاشانہَ اردو ہوا
معانی: مثالِ بو: خوشبو کی طرح ۔ کاشانہَ اردو: مراد اردو زبان کا گھر ۔
مطلب: وہ تو ایک رنگین پھول تھا جو خوشبو کی مانند اڑ گیا ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اے کاشانہ اردو تو آج داغ سے محروم ہو گیا ۔
تھی نہ شاید کچھ کشش ایسی وطن کی خاک میں وہ مہِ کامل ہوا پنہاں دکن کی خاک میں
مہِ کامل: پورا چاند ۔ دکن: حیدر آباد دکن ۔
مطلب: تاہم میرزا داغ نے اتنی کشش تیری خاک میں محسوس نہ کی کہ دکن کی خاک ان کی آخری قیام گاہ بنی ۔
اٹھ گئے ساقی جو تھے، مے خانہ خالی رہ گیا یادگارِ بزمِ دہلی ایک حالی رہ گیا
معانی: میخانہ: شراب خانہ، مراد ملکِ ادب ۔ بزمِ دہلی: مراد دہلی کا ادبی ماحول ۔ حالی: مولانا الطاف حسین حالی اردو کے مشہور شاعر اور غالب کے شاگرد ۔
مطلب: دلی کے تمام اہم اور قابل ذکر شاعر تو رخصت ہو چکے اب تو صرف الطاف حسین حالی رہ گئے ہیں جن کو اس محفل کی یادگار کہا جا سکتا ہے ۔
آرزو کو خون رُلواتی ہے بیدادِ اجل مارتا ہے تیر تاریکی میں صیادِ اجل
معانی: خون رلوانا: بہت صدمہ، دکھ دینا ۔ بیدادِ اجل: موت کی سختی ۔ صیاد: شکاری ۔
مطلب: یہاں اقبال کہتے ہیں کہ موت اس قدر سنگدل واقع ہوئی کہ انسانی خواہشات کی راہ میں ہمیشہ حائل رہتی ہے کہ اس کا تیر تو تاریکی میں ہی اپنے ہدف کو نشانہ بناتا ہے ۔
کھل نہیں سکتی شکایت کے لیے لیکن زباں ہے خزاں کا رنگ بھی وجہِ قیامِ گلستاں
مطلب: لیکن اس کے خلاف شکایت بھی تو لبوں پر نہیں آ سکتی کہ خزاں کے بغیر گلشن کی قدر و قیمت کا اندازہ ممکن نہیں ۔
ایک ہی قانونِ عالم گیر کے ہیں سب اثر بوئے گل کا باغ سے، گل چیں کا دنیا سے سفر
معانی: قانونِ عالمگیر: پوری دنیا میں راءج دستور ۔ گل چیں : پھول توڑنے والا ۔ دنیا سے سفر: مراد دنیا سے اٹھ، مر جانا ۔
مطلب: قدرت کا یہ قانون یکسانیت کا حامل ہے کہ پھول کی خوشبو کا اڑنا اور پھول توڑنے والے کی موت کا انداز قریب قریب ایک جیسا ہی ہے ۔