(6)
امینِ راز ہے مردانِ حُر کی درویشی کہ جبرئیل سے ہے اس کو نسبتِ خویشی
معانی: امینِ راز: راز کا محافظ ۔ مردانِ حر: آزاد مسلمان ۔ نسبت خویشی: اپنائیت ۔
مطلب: سچے اور آزاد منش انسان حق تعالیٰ کے رازوں کے اپنی درویش طبعی کے باوجود جبرئیل ا میں کی طرح امانت دار ہوتے ہیں مراد یہ ہے کہ جس طرح جبرئیل ا میں احکامات الہٰی پوری دیانتداری کے ساتھ انبیاء کرام تک پہنچایا کرتے تھے اسی طرح یہ درویش صفت لوگ خدائے عزوجل کے احکامات تمام لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور دیانت داری کے ساتھ ان کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو ان کے اور جبرئیل ا میں کے مابین یہی ایک رشتہ ہے ۔
کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے فقیہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی
معانی: سفینے: کشتیاں ۔ ناخوش اندیشی: اچھی بات نہ سوچنا ۔
مطلب: دیکھا جائے تو یہ شعر بھی پہلے شعر کا تسلسل ہے جس میں کہا گیا ہے ایسے فقیہ، صوفی اور شاعر جو منافقانہ روش کے حامل ہیں انھوں نے نہ جانے اپنی دنیا داری اور غلط روش سے کتنے لوگوں کو گمراہ کیا ہے اور تباہی کے غار میں دھکیلا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ لوگ اپنے علم و فضل اور دانش سے عوام الناس کی رہنمائی کرتے لیکن اپنی بے عملی اور منافقت کے باعث یہ لوگ تو خود ہی گمراہ ہو کر رہ گئے ہیں ۔
نگاہِ گرم کہ شیروں کے جس سے ہوش اڑ جائیں نہ آہِ سرد کہ ہے گوسفندی و میشی
معانی: نگاہِ گرم: تیز نظر ۔ آہِ سرد: ٹھنڈی سانس ۔ گوسفندی و میشی: بھیڑ کی طرح بزدلی ۔
مطلب: قوموں کی حقیقی رہنمائی کے لیے تو ایسے سچے جذبوں اور اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کو سرگرم عمل کر کے شیر کی سی توانائی اور قوت عطا کرتے ہیں ۔ ایسے جذبوں کی نہیں جو قوموں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بزدل بنا کر رکھ دے ۔
طبیب عشق نے دیکھا مجھے تو فرمایا ترا مرض ہے فقط آرزو کی بے نیشی
معانی: آرزو کی بے نیشی: خواہش کی چبھن ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال ان لوگوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو جذب و عمل سے محروم ہیں ۔ اقبال اس صورت حال کو ایک مخصوص قسم کے مرض سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس مرض کا علاج بھی تجویز کرتے ہیں کہ ملت میں عمل کی سربلندی کا جذبہ ہی ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے ۔
وہ شے کچھ اور ہے کہتے ہیں جانِ پاک جسے یہ رنگ و نم، یہ لہو، آب و ناں کی ہے بیشی
معا نی: جانِ پاک: پاک جان، پرہیزگار ۔ رنگ ونم: چہرے کی ظاہری چمک ۔ آب و ناں : پانی روٹی ، کھانا پینا ۔ بیشی: زیادتی ۔
مطلب: اعلیٰ مقاصد اور ان کے تکمیل کے لیے جس جوش و جذبے کی ضرورت ہے اس کے بغیر انسان سرخرو نہیں ہو سکتا ۔ محض بلانوشی سے انسانی جسم کی پرورش نہیں ہوتی بلکہ اس مقصد کے لیے تو وہ خصوصیات درکار ہیں جو جسم کے ساتھ ساتھ روح میں بھی پاکیزگی کا عنصر پیدا کریں ۔ مراد یہ ہے کہ ظاہر نمود و نمائش بے معنی چیز ہیں اصل حقیقت تو انسان کے اندر کی پاکیزگی ہے ۔