(۱۳)
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
معانی: نظارے کی ہوس: مرا د محبوب حقیقی کو دیکھنے کی شدید خواہش ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اگر مجنوں نے اپنی محبوبہ لیلیٰ کے عشق میں شہر چھوڑ کر صحرا میں ڈیرہ جما لیا تھا تو یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے ۔ لطف تو جب آتا ہے کہ وہ شہر کی طرح صحرا کو بھی ترک کر دیتا ۔ پھر اگر اسے رب ذوالجلال کا جلوہ دیکھنے کی خواہش تھی تو پھر لیلیٰ کے تصور سے بھی دستبردار ہونا ضروری تھا ۔ مراد یہ ہے کہ دنیوی عشق کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے عشق کی آرزو ہے تو اس خالق کائنات سے کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ۔
واعظ! کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
معانی: کمالِ ترک: دنیا اور آخرت سے پوری طرح بے نیاز ہو جانا ۔ عقبیٰ: آخرت ۔
مطلب: اس شعر میں واعظ کو خطاب کرتے ہوئے یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ اگر ترک علائق ہی تیرا کمال ہے اور اسی حوالے سے تو دنیا کو چھوڑنے پر مصر ہے تو پھر آخرت کے تصور کو بھی چھوڑ دے کہ خالق کائنات تک رسائی تو اسی صور ت میں ممکن ہے کہ انسان اپنی خواہشات اور تمناؤں کو ترک کر کے اس سے لو لگا لے ۔
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
معانی: تقلید: پیروی، کسی کے پیچھے چلنا ۔ روش: طریقہ ۔ خود کشی: اپنے ہاتھوں خود کو مار لینا ۔ خضر: رہنا ۔ سودا: خیال ۔
مطلب: اس شعر میں کہا گیا ہے کہ کسی دوسرے کی تقلید اور پیروی سے تو بہتر یہی ہے کہ انسان خود کشی کر لے ۔ ضرورت اس امر کی ہے منزل تک پہنچنے کے لیے اپنا راستہ بھی تلاش کیے جائے اور وہاں تک رہنمائی کے لیے حضرت خضر کی امداد کا تصور بھی ترک کر دیا جائے کہ اسی صورت میں انسان اپنی ذاتی جدوجہد کے ذریعے منزل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔
مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرفِ غیر بیگانہ شے پہ نازشِ بے جا بھی چھوڑ دے
معانی: مانندِ خامہ: قلم کی طرح ۔ حرف غیر: مراد غیر اللہ کی بات ۔ بیگانہ: غیر، پرایا ۔ شے: چیز ۔ نازش بے جا: غلط قسم کا فخر ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال قلم کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قلم سے علم و حکمت کی کیسی کیسی باتیں رقم ہوتی ہیں لیکن یہ کمال دیکھا جائے تو قلم کا نہیں بلکہ اس لکھنے والے کا ہے جو اس قلم کے ذریعے دانش و حکمت کے جواہر دکھاتا ہے ۔ لہذا اگر انسان زندگی میں کمال چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس کے لیے جدوجہد کرے ۔ دوسروں کے عمل کی تقلید پھر اس پر فخر و مباہات تو بے معنی بات ہے ۔ یہ رویہ کبھی بھی اپنانا نہیں چاہیے اس عمل میں انسان سرخروئی حاصل کرتا ہے ۔
لطفِ کلام کیا جو نہ ہو دل میں دردِ عشق بسمل نہیں ہے تو، تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
معانی: لطفِ کلام: شاعری کا مزہ ۔ دردِ عشق: مراد عشق کا شدید جذبہ ۔ بسمل: زخمی ۔
مطلب: اگر دل میں عشق کا درد موجود نہیں تو شعر و سخن میں بھی سوز اور حقیقت کے رنگ نہیں بھرے جا سکتے ۔ اس کی مثال یوں ہو سکتی ہے کہ وہی شخص تکلیف اور درد کے باعث تڑپتا ہے جو فی الواقع زخموں سے نڈھال ہو ۔
شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے
مطلب: اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ دنیا میں قیام انسان کے لیے ایک عارضی حیثیت کا حامل ہے ۔ بالاخر چند روزہ زندگی کے بعد جب موت کو گلے ہی لگانا ہے تو پھر اے انسان شبنم کی پیروی کر کہ وہ چند لمحوں تک پھولوں پر آنسو بہا کر باغ سے اڑ جاتی ہے ۔ تو بھی یہ طرز عمل اختیار کر لے ۔ اور اس چند روزہ زندگی کا جنون چھوڑ دے ۔
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا بُت خانہ بھی، حرم بھی، کلیسا بھی چھوڑ دے
معانی: الگ بیٹھنا: مراد مذہبی فرقہ پرستی کے تعصب سے دور رہنا ۔ بتخانہ، حرم، کلیسا: مراد مختلف قوموں کے عبادت خانے ۔
مطلب: عشق و عاشقی کی رسم تو یہی ہے کہ ہر شے کو ترک کر کے انسان گوشہ تنہائی اختیار کر لے ۔ لہذا تو بھی اسی طرز عمل کی پیروی کرتے ہوئے بتخانہ ، کعبہ اور کلیسا کو چھوڑ کر اپنی دنیا الگ بسا اور خالق حقیقی سے لو لگا لے ۔
سوداگری نہیں ، یہ عبادت خدا کی ہے اے بے خبر! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
معانی: سوداگری: کاروبار ۔ جزا: ثواب ۔
مطلب: رب ذوالجلال کی عبادت تو صمیم قلب سے کی جانی چاہیے ۔ اس عمل کے لیے محض جزا کو پیش نظر رکھنا خلوص دل سے عبادت کے منافی ہے ۔ بلکہ بالفاظ دگر یہ تو ایک طرح سے سوداگری کے مترادف ہے ۔ یوں بھی عبادت سوداگری نہیں ہوتی ۔ اگر دل میں خلوص ہو تو پھر جزا اور انعام کا تصور بے معنی شے بن جاتا ہے ۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
معانی: پاسبان: چوکیدار، حفاظت کرنے والا ۔
مطلب: یہ امر بڑی حد تک مناسب ہے کہ مسئلہ کوئی بھی ہو اس کو بروئے کار لانے کے عمل میں دل اور عقل کے مابین رابطہ برقرار رہے اس کے باوجود کبھی کبھی یہ بھی مناسب ہوتا ہے کہ عقل کے بجائے محض اس جذبے کے تحت کام کیا جائے جس کا تعلق محض دل سے ہو ۔
جینا وہ کیا جو ہو نفسِ غیر پر مدار شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے
معانی: نفسِ غیر: دوسرے کی ذات، کوئی دوسرا ۔ مدار: انحصار ۔
مطلب: ایسی زندگی قطعی طور پر بے معنی ہوتی ہے جس کا انحصار دوسروں پر ہو ۔ چونکہ شہرت کا تعلق بھی دوسروں کی امداد سرپرستی سے ہے اس لیے شہرت کی تمنا ترک کر کے اپنے لیے راستہ خود ہی بنانا چاہیے ۔
شوخی سی ہے سوالِ مکرر میں اے کلیم شرطِ رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے
معانی: سوالِ مکرر: بار بار سوال کرنا ۔ کلیم: حضرت موسیٰ کلیم اللہ ۔ شرطِ رضا: مراد خدا کی مرضی پر خوش رہنے کی شرط ۔
مطلب: حضرت موسیٰ نے جلوہَ خداوندی کے لیے جو بار بار تقاضا کیا تو ان کا یہ عمل محض شوخی ہے نہیں بلکہ سوئے ادب کے مترادف تھا ۔ حق تعالیٰ کی رضا کا پاس تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ جو چاہے اس کے روبرو سر خم کر دیا جائے ۔
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
معانی: ثبوت لانا: دلیل پیش کرنا ۔ مے: عشق کی شراب ۔ ضد: اصرار ۔
مطلب: غزل کے اس شعر سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہاں بھی حسب معمول اقبال واعظوں کے کردار سے بری طرح نالاں ہیں چنانچہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ شخص شراب نوشی کے جواز میں کوئی ثبوت بھی لے آئے تو میں اس کی مخالفت کرتے ہوئے شراب پینا ترک کر دوں گا ۔