Please wait..

(34)

 
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی

مطلب: عشق ہی وہ حقیقت ہے جو انسان کو معرفت ذات سے آشنا کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ غلاموں کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہو جائے تو شہنشاہی کے رازوں سے آگاہ ہو جاتے ہیں اور ان میں وہ جو ہر پیدا ہو جاتا ہے جو غلامی کی نفی کا اہل ہوتا ہے ۔

 
عطّار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی

مطلب: اس شعر میں اقبال خواجہ فرید الدین عطا، مولانا روم، امام رازی اور امام غزالی جیسے دانشوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تنہا علم زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے انقلابی سوچ اور عمل درکار ہوتے ہیں ۔ اور یہ سب کچھ معرفت الہٰی سے ہی حاصل ہوتا ہے اور معرفت الہٰی نماز شب کے اوقات میں اللہ کے حضور گڑگڑانے سے ہی حاصل ہوتی ہے ۔

 
نومید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی

معانی: فرزانہ: عقل مند ۔ کم کوش: کوشش میں سست ۔
مطلب: یہاں اقبال اہل دانش راہ نماؤں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ بے شک تمہارے مقلدین تن آساں اور بے عمل ضرور ہیں ۔ ان میں پہلے سی جفاکشی بھی باقی نہیں رہی ۔ پھر بھی ان سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کہ صحیح رہنمائی پر ان میں عمل کی صلاحیت بہرحال موجود ہے ۔

 
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

مطلب: اقبال کا یہ شعر بھی عام طور پر زباں زد عام ہے جس میں انھوں نے علامتی حوالے سے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس رزق سے موت بہتر ہے جو عملی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ بنے ۔ یعنی ایسا رزق جو کشکول گدائی کے ذریعے حاصل ہو تو اس کے بجائے تو مر جانا بہتر ہے ۔ اس لیے کہ پاکیزہ رزق وہ ہے جو قوت بازو سے حاصل کیا جائے اس میں کسی دوسرے کی عنایات کا شائبہ تک نہ ہو ۔ اس شعر میں علامہ نے اپنے نقطہ نظر کو بڑے عالمانہ اور حکیمانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔

 
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی

معانی: اولیٰ: پہلے درجے پر بلند ۔ اسد اللّٰہی: حضرت علی جیسی بہادری ۔
مطلب: وہ مرد درویش تو دارا و سکندر جیسے عظیم المرتبت بادشاہوں کے مقابلے پر اعلیٰ مرتبے کا حامل ہے جس درویشی میں شیر خدا حضرت علی علیہ السلام کی حاکمانہ بصیرت اور اولولعزمی کی جھلکیاں ہوں ۔ مراد یہ ہے کہ وہ مرد درویش جو حضرت علی مرتضیٰ کی صفات سے استفادہ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے وہ بڑے بڑے عالی مرتبت بادشاہوں سے بھی بلند مرتبہ رکھتا ہے ۔

 
آئینِ جواں مرداں ، حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

معانی: رووباہی: لومڑی کی بزدلی ۔
مطلب: یہ شعر بھی اقبال کے ان مشہور اشعار میں سے ہے جو زبان زد خواص و عام ہیں ۔ اس شعر کی شرح کچھ اس طرح سے ہے کہ جوا نمردوں کا مسلک تو انتہائی جرات مندانہ انداز میں صداقت کا اظہار کرنا ہے اس لیے کہ ایسے لوگ تو شیروں کی سی فطرت کے حامل ہوتے ہیں جن میں لومڑیوں کے مانند بزدلی اور مکاری کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔