قطعہ
کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبی پہ رو رو کے کہہ رہا تھا کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بِنائے ملت مٹا رہے ہیں
قطعہ: ٹکڑا، مراد چند شعروں پر مشتمل نظم ۔ شوریدہ: دیوانہ ۔ خوابگاہ: مراد روضہ مبارک ۔ بنائے ملت: ملت کی بنیاد، عمارت ۔
مطلب: اقبال اس نظم میں فرماتے ہیں کہ کہ کل ایک دیوانہ سر انسان مزار رسول مقبول ﷺ پر کھڑا ہوا آہ و زاری کرتے ہوئے فریاد کر رہا تھا کہ حضور دیکھیے یہ جو ہندوستان اور مصر کے مسلمان ہیں ان کا کردار اس قدر منفی ہے جو مسلم قومیت کی تباہی و بربادی کا باعث بن کر رہ گیا ہے ۔
یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
معانی: زائران: جمع زائر، زیارت کرنے والے ۔ حریم مغرب: مراد یورپ کی درس گاہیں اور شہر وغیرہ ۔ ہزار رہبر: یعنی خواہ کتنے ہی لیڈر بن جائیں ۔
مطلب: یہ مغربی تہذیب و تمدن پر ایمان رکھنے والے لوگ ہمارے رہنما بننے کی کتنی بھی کوشش کریں وہ ہمارے رہبر اس لیے نہیں بن سکتے کہ آپ کی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں ۔
غضب ہیں یہ مرشدانِ خودبیں ، خدا تری قوم کو بچائے بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
معانی: غضب ہیں : مراد بڑے چالاک اور مکار ہیں ۔ مرشدانِ خود بیں : مغرور رہنما ۔ بگاڑ کر: سوچیں بدل کر، گمراہ کر کے ۔ عزت بنانا: بڑے آدمی بننا، شہرت پانا ۔
مطلب: یہ لوگ تو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر خود ساختہ رہنما بن بیٹھے ہیں خداوند کریم قوم کو ان کے کردار سے بچائے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو صحیح راہ سے بھٹکا کر محض اپنے وقار کو بلند کرنے میں سرگرداں ہیں ۔ یہی لوگ تو آج ملت اسلامیہ کے زوال کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔
سنے گا اقبال کون ان کو یہ انجمن ہی بدل گئی ہے نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں
معانی: پرانی باتیں : مراد نیک جذبوں اور جہد و عمل کی باتیں ۔
مطلب: آخری شعر میں اقبال اپنے نظریات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تو زمانہ بدل گیا ہے تہذیب بدل گئی ہے اور تم ہو کہ اپنی شاعری کے حوالے سے پرانی باتیں دہرا رہے ہو ۔ آج کے دور میں آکر کون ان باتوں کو سنے گا ۔