ایک نوجوان کے نام
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
معانی: تن آسانی: سستی، غفلت ۔
مطلب: ہر چند کی یہ نظم اپنے عنوان کے اعتبار سے ایک نوجوان کے نام ہے لیکن عملاً یہاں اقبال نے ملت اسلامیہ کے تمام نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت کی ہے کہ تمہیں تن آسانی زیب نہیں دیتی بلکہ جفاکش ہونا چاہیے اور ضروری ہے کہ حیدر کرار کی سی قوت اور جراء ت اور سلیمان فارسی جیسا استغنا اپنے آپ میں پیدا کرو ۔ یہی عوامل دنیا میں کامیابی و کامرانی کی دلیل ہیں ۔ چنانچہ وہ نظم کا آغاز اس طرح کرتے ہیں ، اے نوجوان! ہر چند کہ تیرے ایوان راحت میں عیش و عشرت کے تمام لوازمات یکجا نظر آتے ہیں اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ تیرے جو صوفے بچھے ہوئے ہیں وہ مغربی طرز کے ہیں اور کمروں کو ایرانی قالینوں سے مزین کر رکھا ہے بے شک تیرے پاس دولت ہے اور دولت کی نمائش کا حق بھی تجھے حاصل ہے لیکن ان نمائشی اشیاء کی موجودگی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تجھے آرام پسندی اور عیش و عشرت کے سوا اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں اور یہی وہ المیہ ہے جو مجھے خون کے آنسو رلاتا ہے ۔
امارت کیا، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی
معانی: امارت: امیری ۔ خسروی: بادشاہی شان ۔ حیدری : حضرت علی کا بازو ۔ استغنائے سلمانی: حضرت سلمان فارسی کا صبر و قناعت ۔
مطلب: دوسرے شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ اے نوجوان! یہ دولت تو الگ رہی اگر تجھے کسی ملک کی بادشاہت بھی مل جائے تو اس سے اس وقت تک کچھ حاصل نہ ہو گا کہ اس کو مضبوط و مستحکم رکھنے کے لیے تجھ میں شیرِ خدا حیدر کرار جیسی قوت اور جراء ت و ہمت کے علاوہ حضرت سلمان فارسی جیسا استغنا ء موجود نہ ہو یعنی تو مذکورہ علائق دنیوی سے بے نیاز نہ ہو جائے ۔
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلی میں کہ پایا میں نے استغنا میں معراجِ مسلمانی
مطلب: اور اس نوع کی بے نیازی عہد حاضر کی جو تہذیب ہے اس کی مصنوعی چکا چوند میں ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکنات سے ہے کہ اس تہذیب نے حرص و ہوس ایسی لعنتیں انسان پر مسلط کر دی ہیں جن سے چھٹکارا اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات پر عمل کرے ۔ انہی تعلیمات کے ذریعے مسلمان عروج و ارتقاء کی منازل طے کرنے کے اہل بن سکتے ہیں ۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
مطلب: اے میرے عزیز! تجھے اس حقیقت کا مکمل ادراک ہونا چاہیے کہ جب نوجوانوں میں بلند ہمتی اور ارادوں میں استحکام کے جوہر پیدا ہوتے ہیں تو وہ اپنی منزل مقصود کی معراج کو چھو لیتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمت و حوصلے کے بغیر منزل تک رسائی ممکن نہیں ۔
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے امیدِ مرد مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
معانی: نومید: نا امید ۔ رازدانوں : راز جاننے والے ۔
مطلب: بے شک حالات کتنے ہی ناگفتہ بہ ہوں اور فضا کتنی ہی ناسازگار ہو اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ اس نوع کی مایوسی اور نا امیدی اس وقت جنم لیتی ہے جب فرد میں علم و عرفان کے جوہر زائل ہو جاتے ہیں ۔ اور وہ اپنی ذات کی شناخت کے عمل اور معرفت خداوندی سے محروم ہو جاتا ہے ۔ امید پر ہی دنیا قائم ہے ۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ منزل کو پا لینے کے لیے عملی جدوجہد کرتا رہے اور اس کا نتیجہ کیا حاصل ہو گا ۔ یہ سب خدا پر چھوڑ دے ۔ مومن کی حقیقی شان اور اس کا کردار ہی یہی ہے ۔
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گبند پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
معانی: نشیمن: گھونسلہ ۔ قصرِ سلطانی: شاہی محل ۔
مطلب: اے نوجوان! اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ جس طرح شاہیں کسی ایسے مقام پر نہیں ٹھہرتا جہاں محض مصنوعی آرام و آرائش ہو بلکہ وہ تو پہاڑوں کی سنگلاخ چٹانوں میں جا بسیرا کرتا ہے تو بھی شاہیں کے مانند ہے ۔ عملی زندگی آرام و آسائش اور عیش و عشرت تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ جفاکشی اور بلند حوصلگی تیرا شعار ہونا چاہیے ۔