Please wait..

شعاعِ آفتاب

 
صبح جب میری نگہ سودائیِ نظّارہ تھی
آسماں پر اک شعاعِ آفتاب آوارہ تھی

معانی: شعاع: کرن ۔ آفتاب: سورج ۔ سودائی: شیدائی، دیوانی ۔ آوارہ: گھومنے پھرنے والا ۔
مطلب: صبح کے لمحات میں جب میری نگاہیں مناظر فطرت کا جائزہ لے رہی تھیں تو میں نے آسمان پر آفتاب کی ایک کرن کو اضطراب کے عالم میں ادھر اُدھر سرگرداں پایا ۔

 
میں نے پوچھا اس کرن سے، اے سراپا اضطراب
تیری جانِ ناشکیبا میں ہے کیسا اضطراب

معانی: سراپا اضطراب: بہت بے چین ۔ ناشکیبا: بے صبر، بیقرار ۔
مطلب: اس کرن سے میں نے استفسار کیا کہ تو کیوں سراپا اضطراب بنی ہوئی ہے آخر تو اس قدر بے چین کیوں ہو رہی ہے اور اس طرح بے صبری کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔

 
تو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے کہ جس کو آسماں
کر رہا ہے خرمنِ اقوام کی خاطر جواں

معانی: خرمنِ اقوام: قوموں کی فصل کا ڈھیر، مراد قو میں ۔ خاطر: واسطے، لیے ۔
مطلب: کیا تو ایک ننھی سی برق ہے آسمان جسے دنیا کے لیے پرورش کر رہا ہے یعنی اگر اقوام عالم کو ایک کھلیان سے تعبیر کر لیا جائے تو تیری حیثیت غالباً اس کھلیان کو خاک کرنے کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے ۔

 
یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے، کیا ہے یہ
رقص ہے، آوارگی ہے، جستجوہے، کیا ہے یہ

معانی: خو: عادت ۔ رقص: ناچ ۔ آوارگی: یونہی چلنے پھرنے کی حالت ۔ جستجو: تلاش ۔
مطلب: ابتدائے آفرینش سے تجھ میں جو اضطراب ہے یا عادت ہے مجھے بتا کہ آخر یہ سب کیا ہے یہ رقص کا انداز ہے یا تجھے کسی چیز کی تلاش ہے ۔ اتنا بتا دے کہ یہ سب کیا ہے

 
خفتہ ہنگامے ہیں میری ہستیِ خاموش میں
پرورش پائی ہے میں نے صبح کی آغوش میں

معانی: خفتہ: سویا ہوا ۔ ہستی: وجود، زندگی ۔ آغوش: گود ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ جب ہماری آنکھ پر ان مجبوریوں کا راز منکشف ہوتا ہے تو دل سے برآمد ہونے والا آنسووَں کا سیلاب خودبخود ہی خشک ہو جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ایسی صورت میں ان مجبوریوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔

 
مضطرب ہر دم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے
جستجو میں لذّتِ تنویر رکھتی ہے مجھے

معانی: لذّتِ تنویر: روشنی پھیلانے کا مزہ ۔
مطلب: اس کے باوجود نہ جانے کیوں میری تقدیر مجھے مضطرب اور بے چین رکھتی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مجھے ہر لمحے روشنی کی تلاش اور جستجو اور لگن رہتی ہے ۔

 
برقِ آتش خو نہیں فطرت میں گو ناری ہوں میں
مہرِ عالم تاب کا پیغامِ بیداری ہوں میں

معانی: برقِ آتش خو: آگ کا مزاج رکھنے والی بجلی ۔ ناری: آگ سے بنی ہوئی ۔ مہرِ عالم تاب: دنیا کو روشن کرنے والا سورج ۔ بیداری: جاگنا ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ اپنی فطرت کے اعتبار سے میں آگ کی پیداوار ہوں اس کے باوجود میری عادتوں میں برق جیسا رویہ موجود نہیں ہے ۔ یعنی میں بجلی اور آگ کی طرح کسی شے کو جلا کر خاکستر میں تبدیل کرنے کی قائل نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ سورج جو طلوع کے بعد ساری دنیا کو اپنے احاطے میں لے لیتا ہے اس کی جانب سے کائنات کے لیے بیداری کا پیغام لے کر آئی ہوں ۔

 
سرمہ بن کر چشمِ انساں میں سما جاؤں گی میں
رات نے جو کچھ چھپا رکھا تھا، دکھلاؤں گی میں

معانی: سما جانا: داخل ہو جانا، جگل پا لینا ۔
مطلب: میرا کردار تو اے اقبال یہ ہے کہ جس طرح سرمہ آنکھوں میں روشنی پیدا کرتا ہے اسی طرح میں بھی انسانوں کی آنکھوں میں سرمے کی مانند سما جانا چاہتی ہوں تاکہ ان سب مناظر کو واضح کیا جا سکے جو رات کی تاریکی کے سبب ان کی آنکھوں سے پوشیدہ تھے ۔

 
تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے
سونے والوں میں کسی کو ذوقِ بیداری بھی ہے

معانی: جویائے ہشیاری: بیدار ہونے، جاگنے کا خواہشمند ۔ ذوق: شوق ۔
مطلب: تاہم تجھ سے بھی ایک سوال ضرور پوچھوں گی کہ اے اقبال! کیا تیرے چاہنے والوں میں کوئی ہوش و خرد کا متلاشی ہے اور کیا ان میں نیند سے بیدار ہونے کی خلش بھی موجود ہے