Please wait..

غزل

 
دریا میں موتی! اے موجِ بیباک
ساحل کی سوغات خار و خس و خاک

معانی: موجِ بے باک: بے خوف لہر ۔ سوغات: تحفہ ۔ خار: کانٹا ۔ خس: تنکے ۔ خاک: مٹی ۔
مطلب: اگر توبے خوف لہر کی مانند ہے تو سمندر کی تہہ میں جا کر موتی حاصل کر اور اگر تو نڈر نہیں اور آرام طلب ہے تو ان لہروں کی مانند زندگی گزار دے جو ساحل سے ٹکراتی رہتی ہیں اور ان کے نصیب میں کانٹوں ، گھاس پھوس، تنکوں اور مٹی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ کامیابی، محنت و مشقت سے حاصل ہوتی ہے ۔ آرام طلبی سے نہیں ۔

 
میرے شرر میں بجلی کے جوہر
لیکن نیستاں تیرا ہے نمناک

معانی: شرر: چنگاری ۔ جوہر: صلاحیت ۔ نیستاں : سرکنڈوں کا جنگل ۔ نمناک: گیلا، پانی سے تر ۔
مطلب: علامہ اپنی شاعری کا اور اپنے خیالات و افکار کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی مثال تو ایک ایسی چنگاری کی مانند ہے جو سرکنڈوں کے جنگل میں آگ لگا سکتی ہے ۔ اس چنگاری میں بجلی کی سی صلاحیت موجود ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ تیرے جس جنگل میں ، میں اپنی چنگاری سے آگ لگانا چاہتا ہوں اس کے سرکنڈے گیلے ہیں اور وہ آگ نہیں پکڑ رہے ۔ مراد یہ ہے کہ میں تو اپنی شاعری اور شاعرانہ پیغام کے ذریعے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنے پر تلا ہوا ہوں لیکن قوم ہے کہ وہ غلامی کی اور آرام طلبی کی زندگی پر رضامند ہے اور میرا س پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ۔

 
تیرا زمانہ، تاثیر تیری
ناداں ! نہیں یہ تاثیرِ افلاک

معانی: تاثیر: اثر ہونا ۔ ناداں : بے وقوف ۔ افلاک: آسمان ۔
مطلب: عام طور پر مشہور یہ ہے کہ زمانہ اور قسمت آسمانوں کی گردش اور ستاروں کی رفتار کی محتاج ہے ۔ شاعر اپنی سوئی ہوئی قوم کے اس عقیدے کو باطل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تیرا زمانہ تیری تاثیر کا محتاج ہے نہ کہ آسمانوں کی گردش کا ۔ تو جس طرح چاہے اسے موڑ سکتا ہے اگر محنت و مشقت کرے گا تو تیرا زمانہ کامیابی کا زمانہ ہو گا ۔ اگر آرام طلب ہو گا تو تیرا زمانہ تجھے کچھ نہیں دے گا ۔ تو ناکامی کا منہ ہی دیکھے گا ۔

 
ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے
جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک

معانی: جنوں : خوش سودا، انتہائی عشق ۔ تقدیر کے چاک: پھٹا ہو لباس قسمت ۔
مطلب : میں نے ایسے خوش سودا اور انتہائی عشق صادق والے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جنھوں نے اپنی تاثیر سے یا فیض سے تقدیر کے پھٹے ہوئے دامن اور گریبان کے چاک سی دیئے ہیں ۔ یعنی افراد و اقوام کی قسمتیں بدل دی ہیں ۔ مردِ مومن، مرد فقیر اور مردِ درویش جن کی طاقتوں کا اقبال نے اپنے کلام میں بار بار ذکر کیا ہے ۔

 
کامل وہی ہے رندی کے فن میں
مستی ہے جس کی بے منتِ تاک

معانی:رندی کا فن: شراب پینے کا فن ۔ بے منت: احسان کے بغیر ۔ تاک: انگور کی بیل یا شراب ۔
مطلب: میں فن شراب خوری میں اس کو ماہر سمجھتا ہوں جس کی مستی انگور کی شراب کے بغیر ہو ۔ جس نے اپنے خون جگر اور خون دل کی شراب پی رکھی ہو یا جو عشق حقیقی کی شراب میں مست ہو ۔

 
رکھتا ہے اب تک مے خانہَ شرق
وہ مے کہ جس سے روشن ہو ادراک

معانی: مے: شراب ۔ میخانہ: شراب خانہ ۔ ادراک: عقل، سمجھ ، شعور، علم ۔
مطلب: رسمی شراب کی برائی اور عشق حقیقی کی شراب کی جو اچھائی اوپر بیان ہوئی ہے اسی کو مزید بڑھاتے ہوئے اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ عشق کے شراب خانے میں اب تک وہ شراب موجود ہے جس سے پینے والے کا علم، شعور، عقل اور سمجھ روشن ہوتی ہے نہ کہ ان شرابیوں کی طرح ضائع ہوتی ہے جو عام انگوری شراب پیتے ہیں ۔

 
اہلِ نظر ہیں یورپ سے نومید
ان اُمتوں کے باطن نہیں پاک

معانی: اہل نظر: نظر والے، جن کی نظر باطن تک پہنچتی ہے ۔ نومید: نا امید ۔ امتوں : اقوام ۔ باطن: اندرون ۔
مطلب: وہ لوگ جو اہل نظر کہلاتے ہیں اور جن کی نظر کسی کے باطن تک کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ یورپ اور اہل یورپ سے نا امید ہیں کیونکہ یورپی اقوام کے ظاہر تو بڑے تابناک ہیں لیکن اندرون ناپاک ہیں ۔ ان کو ان کی تہذیب ، تمدن اور ثقافت نے انکو بے حیا بنا دیا ہے اور وہ انسان نہیں انسان نما حیوان بن گئے ہیں ۔