Please wait..

مردِ بزرگ

 
اس کی نفرت بھی عمیق اس کی محبت بھی عمیق
قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق

معانی: مردِ بزرگ: بڑا آدمی، وہ آدمی جو اللہ کے نزدیک بڑا ہے جو قوم کا بزرگ ہے ۔ عمیق: گہرا ۔ قہر: سختی ۔ شفیق: مہربان
مطلب: اس نظم میں اقبال نے اس شخص کا ذکر کیا ہے جو اللہ کے نزدیک بڑا ہے ۔ یہ اقبال کا مرد مومن بھی ہو سکتا ہے اور اللہ کا کوئی ولی بھی ۔ علامہ کہتے ہیں کہ ایسے شخص کی نفرت بھی گہری ہوتی ہے اور اس کی محبت بھی گہری ہوتی ہے ۔ نفرت باطل سے اور بری چیزوں سے ۔ اور محبت حق سے اور اچھی چیزوں سے ۔ ایسے شخص کو اگر اللہ کے بندوں پر سختی کرتے ہوئے دیکھیں گے تو دراصل اس میں بھی مہربانی کا جذبہ چھپا ہوا ہوتا ہے ۔ وہ سختی بندوں پر ظلم کرنے کے لیے نہیں کرتا بلکہ اس کو راہ راست پر رکھنے کے لیے کرتا ہے ۔ یہ حقیقت میں سختی نہیں ان پر احسان اور مہربانی ہے ۔

 
پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں 
ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق

معانی: تقلید: پیروی ۔ تخلیق: نئی چیز پیدا کرنا ۔ تقاضا ہے: ضرورت ہے ۔
مطلب: یہ مرد بزرگ اگرچہ اپنے عہد کی پیروی کے ماحول میں پھلتا پھولتا ہے لیکن وہ اس پیروی کے اندھیرے میں اپنے آپ کو گم کرنے کی بجائے نئی راہیں تلاش کرتا ہے ۔ اور یہ نئی راہیں پیدا کرنا اس کے سرشت اور مزاج کی عین ضرورت ہے ۔

 
انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو
شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق

معانی:انجمن: محفل ۔ میسر رہنا: حاصل ہونا ۔ خلوت : تنہائی ۔ رفیق: دوست ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے محفل اور شمع کی علامتوں سے اپنا مقصد ادا کیا ہے اور کہا ہے کہ جس طرح محفل کے اندر شمع حاضرین مجلس سے جدا ہوتی ہے لیکن سب کو روشنی پہنچاتی ہے اسی طرح اللہ کا برگزیدہ بندہ بھی مجلس میں ہوتا ہوا سب کادوست بھی ہوتا ہے اور سب سے الگ اور تنہا بھی ہوتا ہے ۔ ہاتھ اس کا کام میں اور دل اس کا خدا کی یاد میں لگا رہتا ہے

 
مثلِ خورشیدِ سحر فکر کی تابانی میں 
بات میں سادہ و آزادہ، معانی میں دقیق

معانی: مثل خورشید سحر: صبح کے سورج کی مانند ۔ فکر کی تابانی: فکر کی چمک دمک ۔ آزادی: آزاد ۔ دقیق: مشکل ۔
مطلب: اس شعر میں سورج اور اس کی روشنی کا استعارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ کا بزرگ بندہ اپنی فکر کی چمک دمک میں صبح کے سورج کی مانند ہوتا ہے ۔ جس طرح صبح کے سورج کے طلوع ہونے سے تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور ہر چیز بیدار ہو جاتی ہے اسی طرح مرد بزرگ کی فکر سے بھی باطل کی تاریکیاں اور غلامی کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں ۔ اس کی باتیں اگرچہ بہت سادہ ہوتی ہیں لیکن غور کیا جائے تو وہ معنوں میں یا سمجھنے کے اعتبار سے مشکل ہوتی ہیں ۔ یعنی اس کی سیدھی سادی باتوں میں بہت سے رمزیں پوشیدہ ہوتی ہیَ

 
اس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم نہیں پیرانِ طریق

معانی: اندازِ نظر: دیکھنے کا انداز ۔ احوال: حال کی جمع، حالات ۔ محرم: آشنا ۔ پیرانِ طریق: طریقت کے پیر مرشد ۔
مطلب: اس مرد بزرگ کے دیکھنے کا اندا ز دوسروں کے دیکھنے کے طریقے سے مختلف ہوتا ہے وہ صرف ظاہری نظروں سے ہی زمانے اور اس کے حالات کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ ان پر باطنی اور معنی خیز نظریں ڈالتا ہے اس کے جو روحانی حالات ہوتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے اس دور کے پیشہ ور پیران طریقت یا ولایت کے میدان میں رسمی قدم رکھنے والے واقف نہیں ہوتے ہیں ۔