(۱)
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدہَ صفات میں
معانی: نوائے شوق: شوق کی آواز ۔ حریمِ ذات: عرشِ الٰہی ۔ غلغلہ: ہنگامے ۔ الاماں : خدا کی پناہ ۔ بتکدہَ صفات: کائنات ، ساری دنیا ۔
مطلب: اس مسلسل غزل کے پہلے شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ میری عشقیہ اور والہانہ پکار سے بارگاہ ایزدی میں ایک شور و تلاطم برپا ہو گیا جب کہ یہ وہ مقام ہے جہاں کسی فرد کے لیے بھی مداخلت کی گنجائش نہیں ہے ۔ شاعر کو ذات خداوندی سے ایسا والہانہ عشق ہے کہ وہ اس کی صفات کو بھی ایک بتکدے کی مانند اپنی وارفتگی کی راہ میں حائل سمجھتا ہے چنانچہ وہ سمجھتا ہے کہ میری والہانہ صدا اس بتکدہَ صفات کو بھی متلاطم کر گئی ۔
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
معانی: تجلیات: دیدار الہٰی کی روشنی ۔
مطلب: میری والہانہ صدا جب حریم ذات میں تلاطم پیدا کر سکتی ہے تو حور و فرشتہ لاکھ غیر مادی سہی پھر بھی وہ میرے تخیل کے اسیر ہیں ۔ میں ان کی اصلیت کا مکمل ادراک کر سکتا ہوں ۔ میری بے باک نگاہی نے تو اے والا صفات تیری تجلیوں میں بھی خلل پیدا کر کے رکھ دیا ہے ۔
گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقشبند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں
معانی: جستجو: تلاش ۔ حرم کی نقشبند: کفر و اسلام کے جذبات پیدا کرنے والی ۔ رستخیز: قیامت ۔ کعبہ و سومنات: کعبہ اور مندر ۔
مطلب: اے باری تعالیٰ تجھے پانے کے لیے میں نے بت خانوں اور مسجدوں کی تعمیر کا اہتمام بھی کیا لیکن تلاش بسیار کے باوجود وہاں کچھ نہ ملا تو پھر اپنی فریاد سے میں نے کعبے اور بت خانوں میں قیامت کر دی ۔ اقبال یہاں دراصل اس نکتے کو پیش نظر رکھے ہوئے ہیں کہ ذات الہٰی عبادت گاہوں تک محدود نہیں ہے اس کا نور تو ہر جگہ و مقام پر ہے ۔ اسے دیکھنے کے لیے تو بس دیدہَ بینا کی ضرورت ہے ۔
گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
معانی: وجود: زندگی کائنات ۔ توہمات: وہم، شک شبہ ۔
مطلب: زندگی میں کبھی ایسا مرحلہ بھی آیا کہ میں نے اپنی تیز نگاہی سے انسانی وجود کی داخلی کیفیتوں اور حقیقتوں کا ادراک کر لیا اور کبھی یوں بھی ہوا کہ اپنے ہی توہمات میں ایسا الجھا کہ اپنی ہی شناخت مشکل ہو گئی ۔ اس شعر میں د و متضاد انسانی اور نفسیاتی کیفیتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
تو نے یہ کیا غضب کیا ! مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینہَ کائنات میں
معانی: غضب: ظلم ۔ فاش: ظاہر کردیا ۔ راز: بھید ۔ کائنات: پوری دنیا ۔
مطلب: یہ شعر بظاہر سیدھا سادہ ہے لیکن اتنا سادہ بھی نہیں کہ با آسانی اس کی گہرائی تک پہنچا جا سکے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اس کائنات کے سینے میں ایک میں ہی تو ایک چھپا ہوا راز تھا کہ تو نے یہ کیا غضب کیا کہ مجھ کو بھی فاش کر دیا ۔