مصور
کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگِ تخیل ہندی بھی فرنگی کا مقّلد، عجمی بھی
معانی: مصور: تصویری بنانے والا ۔ مرگ تخیل: خیالات کی موت ۔ ہندی: ہندوستان کا رہنے والا ۔ فرنگی: یورپ کا رہنے والا ، انگریز ۔ عجمی: ایران کا رہنے والا ۔ مقلد: پیروی کرنے والا ۔
مطلب: یوں تو علامہ اقبال نے اہل مشرق کے ہر شعبہ زندگی میں اہل مغرب کی پیروی کرنے کی بات کی ہے لیکن اس نظم میں مصوری یا تصویر کشی میں اہل مغرب کی پیروی کی خرابیوں کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ مشرق میں افکار و خیالات پر غالباً موت چھا چکی ہے کہ ان میں سے چاہے کوئی ہندی ہو اور چاہے کوئی ایرانی ہو تخیلات و افکار میں اہل مغرب کی ہی پیروی کر رہا ہے ۔ یہاں تک کہ مصوری میں بھی اس نے مغربی مصوروں کی تقلید کو اچھا سمجھا ہے ۔
مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کہ بہزاد کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرورِ ازلی بھی
معانی: بہزاد: قدیم ایران کا ایک مصور ۔ سرور ازلی: ازلی خوشی اور مستی ۔
مطلب: علامہ دوسرے میدانوں کی طرح مصوری میں بھی اہل مشرق کی تقلید دیکھ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے تو یہ غم کھا رہا ہے کہ اس زمانے کے مشرق کے بہزاد یعنی اعلیٰ مصور مغربی مصوروں کی پیروی میں ان کا مقام تو حاصل نہ کر سکے لیکن وہ ازلی خوشی اور مستی جو ان میں مشرقی پن کی وجہ سے موجود تھی اسے بھی ختم کر بیٹھے ہیں ۔
معلوم ہیں اے مردِ ہنر تیرے کمالات صنعت تجھے آتی ہے پرانی بھی نئی بھی
معانی: اے مشرق کے مرد ہنر یعنی مصوری کے فن کو جاننے والے مجھے تیرے اوصاف کمالی کا علم ہے کہ تو مصوری کی پرانی صنعت سے بھی یا فن سے بھی واقف ہے اور مصوری کے نئے ہنر سے بھی آشنا ہے لیکن جو کچھ تجھے کرنا چاہئے اس کا ذکر اگلے شعر میں موجود ہے ۔
فطرت کو دکھایا بھی ہے، دیکھا بھی ہے تو نے آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی
معانی: آئینہ فطرت: قدرت کا شیشہ ۔
مطلب: میں جانتا ہوں کہ اے مشرقی مصور تو نے فطرت کو دیکھا بھی ہے اور اپنی تصویروں میں اس فطرت کے نقشے بھی کھینچے ہیں لیکن بات تب بنے گی جب تو فطرت کے شیشے میں اپنی خودی یا خود شناسی کا چہرہ دیکھے گا اور غیروں خصوصاً اہل مغرب کی مصوری کی تقلید کو چھوڑ کر اس میں اپنے خیالات و افکار کے رنگ بھرے گا ۔