Please wait..

صدائے درد

 
جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیطِ آبِ گنگا تو مجھے

معانی: کل نہ پڑنا: چین نہ آنا، بیقراری ۔ کسی پہلو: کسی طرح بھی ۔ محیط: دریا کا پاٹ ۔ آبِ گنگا: دریائے گنگا، ہندووَں کا بہت مقدس دریا ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال کہتے ہیں کہ ہندوستان کے باشندوں کے مابین نفاق کا جو عالم ہے اس نے مجھے جلا کر رکھ دیا ہے ۔ اسی دکھ کے سبب مجھے ایک لمحے کے لیے بھی اضطراب سے نجات نہیں ملتی ۔ اسی دکھ میں لمحہ بہ لمحہ تڑپ رہا ہوں ۔ اس سے شاید نجات مل جائے کہ میں دریائے گنگا میں ڈوب کر مر جاؤں ۔ شاید یہی عمل میرے سکون کا سبب بن سکے اور اس کرب سے نجات حاصل سکوں ۔

 
سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیا، یاں تو اک قُربِ فراق انگیز ہے

معانی: قیامت کی: بیحد، بہت زیادہ ۔ نفاق انگیز: آپس میں پھوٹ، نا اتفاقی ڈالنے والی ۔ قرب فراق انگیز: ایسی نزدیکی جس میں دوری شامل ہو ۔
مطلب: افسوس کہ میرا وطن عدم اتفاق اور نفاق کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔ یہاں جو مختلف قو میں آباد ہیں وہ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں ہر طرف فرقہ وارانہ فسادات کا زور ہے ۔

 
بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب

معانی: غضب: دکھ کی بات ۔ خرمن: کھلیان، غلے کا ڈھیر ۔
مطلب: ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں اتفاق اور باہمی یگانگت کا مظاہرہ ہوتا ۔ اس کے برعکس اس سرزمین پر موجود ہر شخص دوسرے کے خون کا پیاسا ہے ۔

 
جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لُطفِ نغمہ پیرائی نہیں

معانی: نغمہ پیرائی: ترانہ، گیت گانا ۔
مطلب: یہاں کی فضا محبت و اخوت کے جذبوں سے خالی ہے ۔ سو میرے جیسا درد مند شاعر ایسی فضا میں کس طرح شعر کی تخلیق کر سکتا ہے

 
لذّتِ قربِ حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں
اختلاطِ موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں

معانی: قربِ حقیقی: مراد صحیح معنوں میں د وستی، بھائی چارا ۔ مٹا جانا: کسی چیز بات سے بیحد لگاوَ ہونا ۔ اختلاط: باہم ملنا، ٹکرانا ۔ موجہ و ساحل: لہر اور کنارہ ۔
مطلب: میں توہندوستان کے باشندوں کے مابین حقیقی قرب اور اتحاد کا خواہاں ہوں جب کہ موج اور ساحل کے مابین جو ٹکراوَ اور تصادم کی فضا ہوتی ہے وہ کم از کم میرے لیے اضطراب و بے چینی کا سبب بن جاتی ہے ۔

 
دانہَ خرمن نما ہے شاعرِ معجز بیاں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں

معانی: دانہَ خرمن: ایسا دانہ جس سے پورے کھیت کا پتا چل جائے، دانہ مراد شاعر اور خرمن مراد قوم ۔ شاعرِ معجز بیاں : معجزے کی سی فصیح شاعری کرنے والا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ جس طرح ایک دانے سے پورے کھلیان کی حقیقت اور اس کے معیار کا اندازہ ہو جاتا ہے اسی طرح شاعر اور اس کا کلام کسی قوم کا آئینہ دار ہوتا ہے لیکن خرمن کی تباہی سے دانے کا وجود بھی برقرار نہیں رہتا ۔

 
حُسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو

معانی: مائل: توجہ کرنے، دیکھنے والا ۔ خود نما: اپنے حسن کی نمائش کرنے والا ۔
مطلب: اگر کوئی توجہ کرنے والا ہی موجود نہ ہو تو اپنے حسن کی افادیت بھی ختم ہو جاتی ہے اس لیے کہ شمع تو محفل کو منور کرتی ہے اور جب محفل کا کوئی وجود ہی نہ ہو تو شمع کے جلنے کا کیا فائدہ ۔ مراد یہی ہے کہ جب متحد و متفق قوم ہی نہ موجود ہے تو کوئی شاعر ایسی صورت میں اپنے فن کا اظہار کیسے کر سکے گا ۔

 
ذوقِ گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں

معانی: ذوقِ گویائیَ بولنے کا شوق، اشتیاق ۔ جوہر: مراد چمک دمک ۔
مطلب: اقبال انتہائی یاس و اضطراب کے عالم میں کہتے ہیں کہ مذکورہ صورت حال میں نہ جانے میں عرض ہنر سے گریز کی راہ کیوں نہیں اختیار کر لیتا ۔ نہ جانے مجھ میں جو تخلیقی صفات موجود ہیں ان کا خاتمہ کیوں نہیں ہو جاتا ۔

 
کب زباں کھولی ہماری لذّتِ گفتار نے
پھونک ڈالا جب چمن کو آتشِ پیکار نے

معانی: لذت گفتار: بولنے کا مزہ ۔ پھونک ڈالا: جلا ڈالا ۔ آتشِ پیکار: مراد دوہ قوموں کی باہم دشمنی ۔
مطلب: دکھ کی بات تو یہ ہے کہ میں نے اس لمحے شعر گوئی کا آغاز کیا ہے جب کہ ہندوستان افتراق و نفاق کی آگ میں جل رہا ہے اس حالت میں میرے نغمے کون سنے گا ۔