لینن
(خدا کے حضور میں )
اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات
معانی: اَنفس و آفاق: زمین و آسمان ۔ آیات: نشانیاں ۔
مطلب: لینن روس کا وہ عظیم انقلابی رہنما تھا جس نے کارل مارکس کے اشتراکی فلسفے کو عملی جامہ پہنا کر نہ صرف یہ کہ اپنی جماعت بنائی جس کا نام بالشویک تھا بلکہ 1917 ء میں زار روس کا تختہ الٹ کر اشتراکی حکومت قائم کی ۔ ہر چند کہ اقبال کا اشتراکی نظریات سے کوئی تعلق نہ تھا تاہم انھوں نے اس فلسفے اور اس کے رہنماؤں بالخصوص لینن کے فکر و فلسفے کو جس انداز سے دیکھا یہ نظم اس کی ایک واضح شکل ہے ۔ اس نظم میں علامہ نے لینن کو خدائے ذوالجلال سے مکالمہ کرتے ہوئے پیش کیا ہے ۔ فرماتے ہیں ، اے خدا! میں اس حقیقت سے تو آشنا ہوں کہ عالم ارواح اور عالم اجسام دونوں مقامات پر تیری نشانیاں واضح اور نمایاں ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ تیرا وجود ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے ۔
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
معانی: متغیر: بدلنے والے ۔
مطلب: لیکن اس عالم آب و گل میں فلسفہ و دانش اور ان کے حوالوں سے نظریات میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے اس نے ایک تذبذب کی کیفیت پیدا کر دی ہے جس کے سامنے تیرے وجود کے بارے میں میں بھی بے یقینی کا شکار رہا اور کوئی واضح شکل سامنے نہ آ سکی ۔
محرم نہیں فطرت کے سرودِ ازلی سے بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
مطلب: یوں بھی ہے کہ عصر موجود میں علم ہیَت و نجوم کے ماہر ہوں یا ماہرین فطرت! وہ خود بھی حقیقت کا صحیح ادراک نہیں رکھتے ۔ اول الذکر تو ستاروں کی گردش پر اکتفا کرتے ہیں اور دوسرے آئے دن نئی نئی باتیں سناتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو ان کو فطرت کے مظاہر سے کوئی آگاہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خود بھی تیری ذات کے عرفان سے محروم رہے اور دوسروں کو بھی محروم رکھا ۔
آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات
مطلب: یہ درست ہے کہ جب تک زندہ رہا اس وقت کلیسا کی تعلیم اور پادریوں کی باتوں کو بے معنی سمجھ کر نظر انداز کرتا رہا لیکن اب عالم آخرت میں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ تمام باتیں تو حقیقت پر منبی تھیں ۔
ہم بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے تو خالقِ اعصار و نگارندہَ آنات
معانی: اعصار: زمانے ۔ نگارندہَ آنات: گھڑی پل بنانے والا ۔
مطلب: بے شک ہم تو شب و روز کے چکروں میں محصور او بے بس انسان ہیں اور اے باری تعالیٰ جہاں تک تیری ذات کا تعلق ہے تو زمانوں کا خالق اور ایک ایک لمحے کی واردات کو محفوظ کرنے والا ہے ۔
اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات
مطلب: تاہم! اگر تو مجھ کو اجازت دے اور میری اس جسارت سے درگزر کرے تو وہ بات ضرور پوچھوں گا جسے دنیا کے بڑے بڑے فلسفی اور ان کی تصانیف حل نہ کر سکیں ۔
جب تک میں جیا خیمہَ افلاک کے نیچے کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات
مطلب: اور وہ یہ کہ جب تک میں زندہ رہا یہی بات میرے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی ۔
مطلب: اپنا مدعا بیان کرنے سے قبل یہ ضرور تسلیم کروں گا کہ جب روح میں خیالات متلاطم ہوں تو انسان کو اپنی گفتگو پر قابو نہیں رہتا چنانچہ اس جسارت کے لیے پہلے سے معذرت خواہ ہوں ۔
وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود وہ آدمِ خاکی کہ جو ہے زیرِ سماوات
مطلب: لیکن اے خالق کائنات! بس اتنا بتا دے کہ وہ کون سا انسان ہے کہ تو جس کا معبود ہے کیا یہ وہی انسان تو نہیں جو خاک کا پتلا ہے اور جو زیر آسمان آباد ہے ۔
مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی مغرب کے خداوند درخشندہ فلزّات
معانی: خداوند: مالک، حاکم ۔ سفیدانِ فرنگی: مغربی لوگ، گورے ۔ درخشندہ فلزات: چمکنے والی دھات، سونا چاندی وغیرہ ۔
مطلب: لیکن مشرق کے انسانوں کے خدا تو مغرب کے سفید فام لوگ بنے ہوئے ہیں جنھوں نے اس علاقے پر اپنا تسلط قائم کیا ہوا ہے اورر جہاں تک اہل مغرب کا تعلق ہے وہ ہر لمحے چمکدار دھاتوں یعنی اسلحہ اور سکوں کی پرستش کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ پھر اے باری تعالیٰ یہ تو بتا کہ تیرا پرستار کون ہے ۔
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے حق یہ ہے کہ بے چشمہَ حیواں ہے یہ ظلمات
معانی: چشمہَ حیواں : ہمیشہ کی زندگی کا چشمہ ۔
مطلب: مجھے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ یورپ میں علم و ہنر اور سائنس و فلسفہ نے بڑی ترقی کی ہے اور وہاں ہر سو عقل و خرد کی روشنی ہے لیکن پھر بھی وہاں تاریکی کا دور دورا ہے اور اس تاریکی میں کوئی ایسا چشمہ حیوان نہیں جس سے انسان حقیقی زندگی حاصل کر سکے ۔
رعنائیِ تعمیر میں ، رونق میں صفا میں گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
مطلب: یورپ میں تو صورت حال یہ ہے کہ فن تعمیر، رونق اور صفائی کے اعتبار سے بنکوں کی عمارتیں گرجا گھروں کی نسبت زیادہ آسودہ نظر آتی ہیں اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ یورپی باشندوں کو مذہبی عبادت گاہوں سے زیادہ اپنی دولت اور کاروبار سے لگاوَ ہے ۔
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
معانی: مرگِ مفاجات: اچانک موت ۔
مطلب: تاہم امر واقع یہ ہے کہ بظاہر یہ لوگ تجارت اور کاروبار کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر اس کی حیثیت جوئے سے کم نہیں ۔ یورپ میں کاروبار بالعموم سٹے کی بنیاد پر ہوتا ہے جس میں ایک آدھ شخص کو فائدہ ہوتا ہے جب کہ لاکھوں لوگ اقتصادی طور پر تباہ ہو جاتے ہیں ۔
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
معانی: تدبر: سوچ بچار ۔ مساوات: برابری ۔
مطلب: چنانچہ وہاں جو علم و فلسفہ اور حکمت و سلطنت ہیں وہ بظاہر تو مساوات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن عملاً اپنے استعماری منصوبوں سے لوگوں کے جسموں سے خون نچوڑ لیتے ہیں ۔
بیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
معانی: عریانی: ننگے رہنا ۔ مے خواری: شراب نوشی ۔ افلاس: غریبی ۔ مدنیت: معاشرہ ۔
مطلب: مغرب میں ہر نوع کی ترقی کے باوجود آج بھی کیفیت یہ ہے کہ ان کے زیر نگیں ممالک میں بیروزگاری اور غربت نے ڈیرہ جما رکھا ہے تن ڈھانپنے کو لباس نہیں اور شراب نوشی کی لعنت عام ہے ۔ ان مسائل کے پیدا کرنے کے علاوہ اہل یورپ نے خلق خدا کے لیے کون سی خدمات سرانجام دی ہیں ۔
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
معانی: فیضانِ سماوی: آسمانی فیض ۔ برق و بخارات: بجلی و بھاپ ۔
مطلب: مغربی قوم نے بے شک بجلی اور بھاپ کی قوتوں کو تسخیر کر کے اپنے لیے ترقی کی راہیں تو کھول دی ہیں لیکن اسے قدرت کے انعامات پر اعتماد نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ وہ اخلاقی اقدار سے محروم ہو چکی ہے اور سائنسی اور فنی ارتقاء کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھی ہے ۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
معانی: احساسِ مروت: ایک دوسرے سے محبت کا جذبہ ۔ آلات: ہتھیار ۔
مطلب: یورپ نے صنعتی ارتقاء کے لیے نت نئی مشینوں کی ایجاد سے ان کی اجارہ داری تو قائم کر لی لیکن اس عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسانوں کے دل فولاد کی طرح بے حس ہو گئے اور خود بھی مشین ہی بن گئے اس کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ انسانی ہمدردی کے ساتھ مروت اور احسان کے احساسات بھی ان مشینوں کی زد میں آ کر کچلے گئے ۔ یعنی خود انسان فولادی مشینوں کی مانند بے حس ہو گیا ۔
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
معانی: شاطر: شطرنج کھیلنے والا ۔
مطلب: تاہم اس سائنسی اور فنی ارتقاء کے ذریعے یورپ میں جس طرح کی مصنوعی زندگی بروئے کار آئی ہے اس کی ناکامی کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں اور یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ تقدیر بالاخر انسانی تدبیروں کو شکست دینے میں پھر سے کامیاب ہو گئی ہے ۔ جس کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ استعمار پرستوں نے جو سرمایہ دارانہ صنعتی نظام قائم کیا تھا وہ اب شکست و ریخت سے دوچار ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ اس نظام کا مقصد محض دولت کا ارتکاز اور پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ قوموں کو لوٹ کر مزید انحطاط سے دوچار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ۔ خود یورپ میں محنت کشوں میں بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے ان کو احساس ہو چکا ہے کہ صنعتکار اور سرمایہ دار ان کی محنت سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں اور وہ خود افلاس کی چکی میں بری طرح سے پستے جا رہے ہیں ۔ چنانچہ ان کی صفوں میں ہلچل پیدا ہو چکی ہے اور شدید رد عمل کا آغاز ہو چکا ہے ۔
میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیرانِ خرابات
معانی: تزلزل: کانپ جانا، زلزلے کی حالت ۔ مات: شکست ۔
مطلب: یورپ کا سرمایہ دارانہ نظام بے شک کچھ عرصے تک تو کامیابی سے دوچار رہا لیکن اس کی بنیاد چونکہ مستحکم نہ تھی اس لیے اب بری طرح سے انتشار سے دوچار ہے ۔ چنانچہ اس نظام کو جاری رکھنے والے خود پریشان ہیں کہ جو صورت حال سامنے نظر آ رہی ہے اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوں ۔
چہروں پہ جو سُرخی نظر آتی ہے سرِ شام یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
مطلب: اس مشینی اور استعماری نظام نے جہاں دوسروں کو متاثر کیا ہے وہاں خود اس نظام کے مدعی اہل یورپ کی صحتیں برباد ہو چکی ہیں ۔ سر شام جب وہ گھر سے بن ٹھن کر برآمد ہوتے ہیں تو ان کے چہروں کی سرخی فطری نہیں بلکہ اس امر کی غماز ہوتی ہے کی یا تو ان کے چہروں پر شراب نوشی یا پھر مختلف نوعیت کے پاوڈر کے استعمال کے سبب سرخ ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ مصنوعی زندگی نے ان کی صحتوں کو گھن کی طرح چاٹ لیا ہے اور اب جو چہروں پر سرخی نظر آتی ہے وہ فطری نہیں بلکہ مصنوعی ہے ۔
تو قادر و عادل ہے، مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہَ مزدور کے اوقات
معانی: قادر و عادل: قدرت کا مالک اور انصاف کرنے والا ۔ تلخ: تکلیف دہ ۔
مطلب: نظم کے ان آخری دو اشعار میں یہ لہجہ نسبتاً زیادہ تلخ نظر آتا ہے ۔ زیر تشریح شعر میں باری تعالیٰ سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بے شک تجھے کائنات کی ہر شے پر قدرت حاصل ہے اور تو عادل و منصف بھی ہے اس کے باوجود اتنا بتا دے کہ تیری دنیا میں مزدوروں اور محنت کشوں کی زندگیوں میں تلخیاں کیوں بھری ہوئی ہیں ۔ انہیں اطمینان قلب کیوں نصیب نہیں ہوتا
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات
معانی: سفینہ: بیڑا، جہاز ۔ روزِ مکافات: بدلے یا سزا کا دن، قیامت ۔
مطلب: مجھے اب اتنا بتا دے کہ سرمایہ دارانہ اور استعماری نظام کب تباہ ہو گا اب تو ساری دنیا اس ضمن میں روز مکافات کی منتظر ہے ۔ بے شک ظالم کی رسی ایک حد تک دراز ضرور ہوتی ہے لیکن بالاخر ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب تیرا عذاب اس پر نازل ہوتا ہے ۔ استعماری نظام اب ظلم کی انتہا تک پہنچ گیا ہے ۔ اس پر تیرا عذاب کب نازل ہو گا ۔ اور دنیا بھر کے لوگ اس ظالمانہ نظام سے کب نجات پا سکیں گے ۔