Please wait..

ساقی نامہ

 
ہوا خیمہ زن کاروانِ بہار
ارم بن گیا دامنِ کوہسار

معانی: خیمہ زن: خیمہ لگانا ۔ کارواں : قافلہ ۔ ارم: جنت ۔ کہسار: پہاڑ ۔
مطلب: اقبال نے یوں تو اس نوعیت کی متعدد نظمیں تخلیق کی ہیں لیکن زیر تشریح نظم جو بال جبریل میں ساقی نامہ کے عنوان سے شامل ہے اس موضوع پر ان کی طویل ترین نظم ہے جو ننانوے اشعار اور سات بند پر مشتمل ہے ۔ یہ بند علی الترتیب موسم بہار، عہد حاضر کے انقلابات اور ملت اسلامیہ کی پستی ، باری تعالیٰ کے حضور ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے دعائیں ، زندگی کے حقائق، زندگی کی خصوصیات، راز خودی اور خودی کے محاسن و اوصاف کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ آخری چند اشعار فلسفہ زندگی اور پیغام سے عبارت ہیں ۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ موسم بہار کی آمد آمد ہے اور پہاڑوں کے دامن میں اس طرح سے رنگ برنگے پھول نشوونما پا رہے ہیں کہ ان کو دیکھ کر باغ ارم کا گمان ہوتا ہے ۔

 
گل و نرگس و سوسن و نسترن
شہیدِ ازل لالہ خونیں کفن

معانی: شہیدِ ازل: پہلے دن کا عاشق ۔ خونیں کفن: سرخ کفن والا ۔
مطلب: اس باغ ارم میں گلاب، نرگس ، سوسن، و نسرین کے علاوہ لالے کے پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں ۔ ان کا وجود نگاہوں کو خیرہ کیے دیتا ہے ۔

 
جہاں چھپ گیا پردہَ رنگ میں
لہو کی ہے گردش رگِ سنگ میں

مطلب: ساری کائنات انہی رنگارنگ پھولوں میں چھپ کر رہ گئی ہے ۔ ان کے حسن نے اس کو مسرور و مسحور کر دیا ہے ۔ عمارات پر بھی نظر ڈالئے تو ان پر بھی ان پھولوں کے رنگ یوں جگمگا رہے ہیں جیسے ان میں لگے ہوئے پتھروں کی رگ رگ میں سرخ رنگ لہو گردش کر رہا ہو ۔ مراد یہ ہے کہ بہار کے پھولوں نے چار سو رنگ و نور پھیلا رکھا ہے ۔

 
فضا نیلی نیلی، ہوا میں سرور
ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور

معانی: سرور: خوشی ۔ طیور: پرندے ۔
مطلب: اس منظر سے ساری فضا رنگ برنگی ہو کر رہ گئی ہے ۔ پھولوں کی مہک اور عطربیز ہوائیں دل و نظر کو سرور بخش رہی ہیں ۔ انسان تو انسان، پرندے تک جھومتے ہوئے اپنے آشیانوں سے باہر نکل کر اس کیفیت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔

 
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی ، لچکتی، سرکتی ہوئی

معانی: جو: نہر، ندی ۔ کہستاں : پہاڑی ۔ اچکتی: اچھلتی ۔ اٹکتی: رکتی ۔ لچکتی: نرم ہوتی ۔ سرکتی: کھسکتی ۔
مطلب: موسم بہار محض عام فضا پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ پہاڑ اور دریا بھی اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں چنانچہ پہاڑوں میں سے برآمد ہونے والے ندی نالوں کا یہ عالم ہے کہ کبھی تو وہ دھیرے دھیرے اور خراماں خراماں رواں دواں ہوتے ہیں اور کبھی رکتے ہوئے اور سرسراتے ہوئے گزر رہے ہیں ۔

 
رُکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ

معانی: سل: پتھر ۔
مطلب: دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی تیز روانی کے سبب جب ان ندی نالوں کی راہ میں کوئی پتھر آ جائے تو ان کو ریزہ ریزہ کر ڈالتے ہیں ۔ اس لمحے یوں لگتا ہے جیسے وہ پہاڑوں کے دل چیر رہے ہوں ۔ واضح رہے کہ یہ اشعار اپنے مضمون کے اعتبار سے موسم بہار میں پہاڑی ندی نالوں کی کیفیت کے مظہر ہیں ۔

 
ذرا دیکھ اے ساقیِ لالہ فام
سناتی ہے یہ زندگی کا پیام

معانی: ساقیِ لالہ فام: شراب پلانے والا، حسین ساقی ۔
مطلب: اقبال اپنے موضوع کے بنیادی کردار ساقی سے مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اور باتوں کے علاوہ اس جانب بھی توجہ دے کہ زندگی تجھے کیا پیغام دے رہی ہے ۔ اس شعر سے قبل کوہ و ندی کے حوالے سے جو حرکت اور جوش کی بات کی گئی ہے وہی دراصل بندی حیثیت کی حامل ہے ۔

 
پلا دے مجھے وہ مئے پردہ سوز
کہ آتی نہیں فصلِ گل روز روز

معانی: مئے پردہ سوز: شراب جو پردے جلا ڈالے ۔ فصلِ گل: بہار ۔
مطلب: اے ساقی! یہ تو ایک بدیہی امر ہے کہ یہ فصل گل اور موسم بہار کا مخصوص وقت ہوتا ہے ۔ روز روز ان کی آمد ممکن نہیں ۔ لہذا اس سے حقیقی طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ تو مجھے ایسا نشہ آور مشروب دے جو اس پردے کو جلا کر خاک کر دے کہ جو میرے اور تیرے درمیان حائل ہیں ۔

 
وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات
وہ مے جس سے ہے مستیِ کائنات

معانی: مے: شراب ۔ ضمیرِ حیات: زندگی کا باطن ۔
مطلب: مجھے وہ نشہ پلا جو ضمیر حیات کی روشنی اور تازگی بخشتا ہے اور جس کے سرور سے ساری کائنات و جد میں آ جاتی ہے ۔

 
وہ مے جس میں ہے سوز و سازِ ازل
وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازل

معانی: سوز و سازِ ازل: دنیا کے آغاز کے جوش و خروش ۔
مطلب: ایسا نشہ جو آغاز کائنات کے سوز و ساز سے عبارت ہے یہی نہیں بلکہ عشق حقیقی کے حوالے سے آغاز کائنات کے بھید کھولنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔

 
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے

معانی: ممولہ: کمزور چڑیا ۔
مطلب: اور اے ساقی! جب تو راز عشق سے پردہ اٹھا دے گا تو مجھ ایسا کمزور و ناتواں شخص بھی اپنے انتہائی طاقتور حریف سے اس طرح نبرد آزما ہو سکے گا جس طرح کہ ایک ننھی چڑیا عقاب کے مقابلے پر سر دھڑ کی بازی لگا دے ۔

 
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے

مطلب: اس بند میں علامہ اقبال نے اپنے عہد میں عالمی سطح پر جن تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ان کو اپنے افکار و تجربات کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ آج کا عہد انقلابی تبدیلیوں کی زد میں ہے ۔ جس طرح کسی گیت کے لیے نئے راگ اور نئے سازوں سے کام لے کر موسیقار روایت سے ہٹ کر نئی دھن ترتیب دیتا ہے اسی طرح معاشرتی سطح پر تمام دنیا میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔

 
ہُوا اس طرح فاش رازِ فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ

معانی: فاش: کھل گیا ۔ رازِ فرنگ: انگریزوں کا بھید ۔ شیشہ باز: شیشہ بنانے والا ۔
مطلب: ان انقلابی تبدیلیوں کے سبب ساری دنیا کو اب اس حقیقت کا علم ہو چکا ہے ۔ یورپ اپنے استعماری نظام کو زندہ رکھنے کے لیے کس طرح دوسرے ممالک کا عیاری اور مکاری کے ساتھ استحصال کرتا ہے ۔ اس راز کے اچانک افشاء ہونے سے خود استعمار پسند یورپی ممالک حیرت زدہ ہو کر رہ گئے ہیں ۔ ان کے لیے یہ امر انتہائی خدشات کا سبب ہے کہ ان کے زیر اقتدار ملک بھی اس عیاری اور مکاری سے آگاہ ہو گئے ہیں ۔

 
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

معانی: سیاست گری: سیاست کرنا ۔ خوار: ذلیل ۔ میر و سلطان : حکمران ۔ بیزار : تنگ ۔
مطلب: بدلتے ہوئے حالات میں کیفیت یہ ہے کہ سیاست کے قدیم ہتھکنڈے ناکارہ اور ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے ہیں اور پوری دنیا بادشاہی ملوکیت ، آمریت سے بیزار ہو چکی ۔ اب کوئی بھی اس فرسودہ نظام کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔

 
گیا دَور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا

معانی: سرمایہ داری: دولت مندی ۔ مداری: تماشا دکھانے والا ۔
مطلب: سب اس حقیقت سے آشنا ہو چکے ہیں کہ سرمایہ داری کا استحصالی نظام اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ختم ہو گیا ہے ۔ بالکل ایک ایسے مداری کی طرح جو تماشا دکھاتا ہے اور تماشائیوں سے اس کا معاوضہ وصول کر کے اپنی راہ لیتا ہے ۔ اسی طرح سے استعماری نظام نے بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ لیا ہے ۔

 
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے

معانی: گراں خواب: زیادہ سونے والے ۔
مطلب: حد تو یہ ہے کہ اہل چین جن کو مغرب نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہوئے منشیات کا عادی بنا دیا تھا اسی عادت بد کے سبب وہ ناکارہ ہو کر رہ گئے تھے ۔ اب وہ شعوری سطح پر بیدار ہونے لگے ہیں اور اپنے حقوق کے حصول کی خاطر مغرب کے خلاف نبرد آزمائی کے لیے تیار ہو رہے ہیں ۔ یہی کیفیت ہمالہ کے نواحات کی ہے ۔ یعنی ہندوستان اوراس کے قرب کے ممالک میں بھی استعماریت سے آزادی کی لہریں اٹھ رہی ہیں ۔

 
دلِ طورِ سینا و فاراں دو نیم
تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم

معانی: طورِ سینا: طور کا پہاڑ ۔ فاراں : مکے کا پہاڑ ۔ دو نیم: دوہرا ہونا ۔ تجلی: روشنی ۔ کلیم: حضرت موسیٰ علیہ السلام
مطلب: یہاں سے اقبال مذکورہ بالا پس منظر کے حوالہ سے بڑی دل سوزی کے ساتھ ملت اسلامیہ کے انحطاط و زوال پر روشنی ڈالتے ہیں کہ عالمی سطح پر انقلابی تبدیلیوں کے باوجود ملت مسلمہ شعوری سطح پر عصری انقلابات کا ادراک رکھنے کے باوجود انحطاط سے دوچار ہے ۔ اور جس طرح کوہ طور پر حضرت موسیٰ اور فاران کی چوٹی پر حضور سرور کائنات نے معجز نمائی کی آج بھی پوری ملت اس طرح کے معجزوں کی منتظر ہے ۔ خود کسی قسم کی عملی جدوجہد سے گریزاں ہے ۔

 
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش

معانی: توحید: اللہ کی وحدانیت ۔ گرمجوش: جوش سے بھرا ہوا ۔ زنار پوش: ہندووَں کا مقدس دھاگا، مراد ہندو ۔
مطلب: ہر چند کہ مسلمان توحید الہٰی کے ضمن میں بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن غلامی کے دور میں اس کے عقائد میں جس طرح سے ردوبدل ہوا آج بھی وہ اس کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے ۔

 
تمدّن، تصوف، شریعت، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام

معانی: تمدن: رہنے سہنے کا طریقہ ۔ تصوف: روحانیت ۔ شریعت: اسلامی قانون ۔ کلام: عقلی دلائل ۔ بتانِ عجم: غیر عرب لوگوں کے بت یا اصول ۔ پجاری: عبادت کرنے والے ۔
مطلب: حد تو یہ ہے کہ معاشرت اور رہن سہن ہی نہیں تصوف، شریعت اور علم کلام غرض آج کے مسلمانوں میں اسلام کے نظریات کی بجائے عجمی معتقدات کا رنگ زیادہ غالب ہے ۔

 
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی

معانی: حقیقت: یعنی معرفت و حقیقت، صحیح تصوف ۔ خرافات: فضولیات ۔ روایات: سنی سنائی باتیں ۔
مطلب: اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم، فضول اور لغو معاملات سے ہم آہنگ ہو کر رہ گئی ہے ۔ اور پوری ملت اسلامیہ جو انقلابی نظریات کی آئینہ دار تھی اب وہ محض توہمی روایات میں دب کر رہ گئی ہے ۔

 
لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب
مگر لذتِ شوق سے بے نصیب

معانی: لبھاتا ہے: اچھا لگتا ہے ۔ خطیب : واعظ ۔
مطلب: بے شک مسلمان علماء اور واعظین کی پرزور خطابت سننے والوں کے دل کو تو لبھا لیتی ہے مگر ان تقریروں میں حقیقت کی وہ چاشنی موجود نہیں ہوتی جو قلب و روح کو منور کرتی ہے ۔

 
بیاں اس کا منطق سے سُلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں اُلجھا ہوا

معانی: منطق: فلسفہ ۔ لغت: معنی بتانے کی کتاب ۔ بکھیڑوں : جھگڑوں ۔
مطلب: اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ ان علماء اور واعظین کا بیان منطق اور فلسفے کے علوم سے آراستہ ہوتا ہے لیکن وہ جو ثقیل و پرشوکت الفاظ اور تراکیب استعمال کرتے ہیں وہ بالعموم عام سامع کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے ۔ اس صورت میں ان تقریروں کا اثر کیا خاک ہو گا

 
وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد
محبت میں یکتا، حمیّت میں فرد

معانی: صوفی: روحانیت کا عالم ۔ حمیت : غیرت ۔ فرد: واحد، مضبوط ۔
مطلب: ملت اسلامیہ میں ایک زمانہ تھا کہ تصوف پر اعتقاد رکھنے والا شخص خدائے ذوالجلال اور اس کی وضع کردہ حقیقتوں پر جان نثار کرنے کے لیے آمادہ ہوتا تھا ۔ یہی نہیں اس کے دل میں بندگانِ خدا سے بھی بے پناہ جذبہ محبت ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ غیرت مندی اور جرات اس کے کردار کی بنیادی خصوصیت ہوتی تھی ۔ لیکن اب تو کیفیت ہی مختلف ہے ۔

 
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا

معانی: سالک: روحانیت کا مسافر ۔ مقامات: تصوف کی مختلف منزلیں ۔
مطلب: آج کی صورت حال تو یہ ہے کہ وہی صوفی جس کی خصوصیات گذشتہ شعر میں بیان کی گئی ہیں افسوس کہ اب وہ غیر اسلامی اور غیر حقیقی روایات میں گم ہو کر رہ گیا ہے اور اپنی روایات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے ۔

 
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

مطلب: اس ساری کیفیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے دلوں میں عشق حقیقی کا جو شعلہ روشن تھا وہ بجھ چکا ہے اور عملاً ملت اسلامیہ راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئی ہے ۔

 
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا

معانی: شراب کہن: پرانی شراب، آغاز اسلام کی شراب ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال رب ذوالجلال سے درخواست کرتے ہیں کہ خداوندا! مجھے ایک بار پھر عشق محمد مصطفی کی دولت سے نواز دے کہ یہی عہد قدیم سے روز حشر تک میرا سرمایہ حیات اور جزو ایمان ہے ۔

 
مجھے عشق کے پَر لگا کر اڑا
مری خاک جگنو بنا کر اڑا

مطلب: عشق حقیقی کی انتہائی معراج میرے قلب و روح کا سرمایہ ہو اور میری خاک کا ہر ذرہ جگنو کی طرح پرواز کرے جس سے ساری فضا منور ہو جائے ۔

 
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر

معانی: خرد: عقل ۔
مطلب: اے مولائے کائنات! ملت مسلمہ کے ذہنوں کو غلامی سے آزاد کر کے ان میں انقلاب برپا کر دے تا کہ وہ غیروں کی غلامی سے آزاد ہو جائیں ۔ اسی طرح جو ملت کے نونہال ہیں کہ وہ دینی اور انسانی سطح پر اپنے اجداد سے بھی بازی لے جائیں ۔

 
ہری شاخِ ملت ترے نم سے ہے
نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے

معانی: نفس: سانس ۔
مطلب: ملت اسلامیہ دیکھا جائے تو تیری عنایات کے طفیل ہی زندہ و پائندہ ہے اور تیرے ہی لطف و کرم کے سبب تمام تر مشکلات کے باوجود اسے فروغ حاصل ہے ۔

 
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰ  سوزِ صدیق  دے

معانی: مرتضیٰ: حضرت علی علیہ السلام ۔ صدیق: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ۔
مطلب: اے مالک حقیقی! مجھے اتنی توفیق عطا فرما کہ اپنی منزل تک رسائی کے لیے عملی جدوجہد سے کام لے سکوں ۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لیے لازم ہے کہ علی مرتضیٰ جیسا جرا ء ت ، ہمت اور حوصلہ سے بھرپور دل عطا ہو ابوبکر صدیق جیسا سوز و گداز حاصل ہو ۔ یہی وہ عوامل ہیں جو کامیابی کے ضامن بن سکتے ہیں ۔

 
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنّا کو سینوں میں بیدار کر

معانی: تیر: مراد دینی جذبہ ۔ تمنا: آرزو ۔
مطلب: خدایا! ملت کے قلب و روح کو پھر سے عشق رسول اللہ ﷺ سے ہمکنار کر اور منزل تک رسائی کے جذبے سے پھر اسے سرشار کر دے ۔

 
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر

معانی: شب زندہ دار: راتوں کے عبادت کرنے والے ۔
مطلب: اے رب العزت تیرے آسمان اور ستارے ہمیشہ سلامت رہیں اور دنیا میں وہ لوگ جو راتوں کی نیندیں قربان کر کے تیری بارگاہ میں سجدہ نیاز بجا لاتے ہیں وہ بھی زندہ سلامت رہیں ۔

 
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے

معانی: سوزِ جگر: جگر کی گرمی یعنی جوشِ عمل ۔
مطلب: میں دست بدعا ہوں کہ ملت کے نوجوانوں کو سوز و گداز سے آشنا کر اور جس طرح میں عشق حقیقی کا پرستار ہوں اور جیسے میری نظریں نور حقیقی سے منور ہیں یہ صلاحتیں نوجوانوں میں بھی پیدا کر دے ۔

 
مری ناوَ گرداب سے پار کر
یہ ثابت ہے تو اس کو سیّار کر

معانی: ناوَ: کشتی ۔ گرداب: طوفان ۔ سیّار: چلنے والے ستارے ۔ ثابت: رکی ہوئی ۔
مطلب: اے مولائے کل! ملت اسلامیہ کے ہر پیر و جواں کو مشکلات سے نکال کر ان کی منزل تک پہنچا دے ۔ ان کی جو کشتی میری طرح گرداب میں پھنسی ہوئی ہے اسے بھی پار لگانے کا اہتمام کر ۔

 
بتا مجھ کو اسرارِ مرگ و حیات
کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات

معانی: اسرار: بھید ۔ مرگ و حیات: زندگی اور موت ۔
مطلب: تو مجھے بھی موت اور زندگی کے تمام اسرار و رموز سے آگاہ کر دے اس لیے کہ یہ محض تیرا ہی وجود ہے جو تمام کائنات کے احوال سے باخبر ہے ۔

 
مرے دیدہَ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بیتابیاں

معانی: دیدہَ تر: روتی ہوئی آنکھ ۔ بے خوابیاں : جاگنا ۔ بیتابیاں : بے چینیاں ۔
مطلب: ملت مسلمہ جس ابتلا میں گرفتار ہے اور انحطاط و زوال سے دوچار ہے اس پر میرا دل خون کے آنسو روتا رہتا ہے ۔ یہی اذیت مجھے شب بھر بیدار رکھتی ہے ۔ لیکن افسوس اس امر پر ہے کہ میری اس حالت سے کوئی واقف نہیں ۔

 
مرے نالہَ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز

معانی: نالہَ نیم شب: آدھی رات کی فریاد ۔ نیاز: عجز ۔ خلوت: چھپ کر رہنا ۔ انجمن: ظاہر رہنا، محفل ۔
مطلب: اسی کیفیت کے سبب میں تیری بارگاہ میں نصف شب کے وقت نالہ و فغاں میں مصروف رہتا ہوں ۔ تنہا ہوں یا کسی اجتماع کے مابین! ہر لمحے میرا قلب اسی کرب کا شکار رہتا ہے ۔ اور ہر لمحے اضطراب مجھ پر مسلط رہتا ہے ۔

 
امنگیں مری، آرزوئیں مری
امیدیں مری، جستجوئیں مری

معانی: اے مولا!میری امنگیں اور آرزوئیں سب میری ذات تک محدود نہیں بلکہ پوری ملت کے لیے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ میں اس کے لیے ہی بہتری کی امید اور جستجو کرتا رہتا ہوں ۔

 
مری فطرت آئینہ روزگار
غزالانِ افکار کا مرغزار

معانی: فطرت: عادت ۔ آئینہ روزگار: دنیا کا شیشہ ۔ غزالان: ہرن ۔ افکار: سوچیں ۔ مرغزار: سبزہ زار ۔
مطلب: میں تو ایک ایسا مفکر ہوں جو فطرتاً کائنات کے حقائق کا ادراک حاصل کرنے میں مصروف رہتا ہے اور میرا دل ہر نوع کے خیالات کا خزینہ ہے ۔ جس میں انسان اور معاشرے کی بہبودی کے لیے جذبات موجزن رہتے ہیں ۔

 
مرا دل مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات

معانی: رزم گاہ: میدانِ جنگ ۔ گمان: وہم، شک شبہ ۔ ثبات: ثابت قدمی ۔
مطلب: اے رب کریم! میرا دل تو حیات انسانی کے جملہ مسائل کی آماجگاہ ہے جہاں ہر لمحے نیک و بد میں تصادم رہتا ہے اور ہر نوع کے یقین و گمان کا مرکز ہے ۔

 
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر

معانی: متاع: سامان ۔
مطلب: میں تو ایک فقیر و درویش کے مانند ہوں لیکن تو نے میری ذات میں جو خصوصیات پیدا کی ہیں اور جن کا تذکرہ میں اشارتاً گزشتہ چند اشعار میں کر چکا ہوں انہی کے دم پر میں امیری کا لطف حاصل کر رہا ہوں ۔

 
مرے قافلے میں لُٹا دے اسے
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے

مطلب: ان اشعار میں جو اسرار و رموز بیان کئے گئے ہیں تو جانتا ہے کہ ملت کے لیے وہ کس قدر کارآمد ہیں ۔ تجھ سے اتنی ہی استدعا ہے کہ یہ جذبے ملت مسلمہ کے سینوں میں بھی داخل کر دے کہ تو اس عمل پر قادر ہے ۔

 
دمادم رواں ہے یمِ زندگی
ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی

معانی: دمادم رواں : لگاتار جاری ۔ یم: دریا، سمندر ۔ رم: چل چلاوَ ۔
مطلب: اس بند میں اقبال نے زندگی کے ان اسرار و رموز سے پردہ اٹھایا ہے جن کا ہر فرد کو ادراک نہیں ہے ۔ فرماتے ہیں کہ زندگی کا تمام کاروبار ہر لمحے جاری و ساری ہے ۔ افراد کی عملی جدوجہد نے اس میں جوش و خروش پیدا کر دیا ہے ۔ اسی کے سبب ہر شعبے میں ترقی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں ۔

 
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود
کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دود

معانی: نمود: ظاہر ہونا ۔ دود: دھواں ۔
مطلب: جس طرح سے آگ کے ایک شعلے میں دھوئیں کی ایک رو پوشیدہ ہوتی ہے اسی طرح جسم حیات انسانی میں چھپا ہوا ہوتا ہے اور یہ زندگی ہی ہے جو اسے وجود عطا کر کے نمایاں کرتی ہے ۔ مراد یہ کہ اصل شے روح حیات ہے ۔

 
گراں گرچہ ہے صحبتِ آب و گل
خوش آئی اسے محنتِ آب و گل

معانی: آب و گل: دنیا ۔
مطلب: ہر چند کہ حیات کو آگ ، پانی ، مٹی اور ہوا جیسے جملہ عناصر کی حدود میں رہنا گوارا نہیں لیکن یہ عناصر انسانی وجود میں جدوجہد میں ا رتقاء کی علامت ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کو خوشگوار انداز میں برداشت کر لیتی ہے ۔

 
یہ ثابت بھی ہے اور سیّار بھی
عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی

معانی: ثابت: رکا ہوا ۔ سیار: چلنے والا ستارہ ۔
مطلب: یہ نکتہ کہ زندگی مذکورہ چار عناصر کے پھندے میں جکڑی ہوئی بھی ہے اس کے باوجود انہی عناصر کے وسیلے سے چونکہ وجود قائم و دائم ہے اور انہی کے سبب ترقی کے مواقع نصیب ہوتے ہیں اسی لیے زندگی کے لیے جملہ عناصر ناگزیر ہیں ۔

 
یہ وحدت ہے، کثرت میں ہر دم اسیر
مگر ہر کہیں بے چگوں ، بے نظیر

معانی: وحدت: اکٹھ، ایک چیز ۔ کثرت: زیادہ ۔ اسیر: قیدی ۔ بے چگوں : بے مثال ۔
مطلب: زندگی تو عملاًظہور وحدت ہے تاہم اس کے منظر نامے میں جو اشیاء موجود ہیں وہ کثرت کی آئینہ دار ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہر شے اور اس کا منظر جدا جدا اور ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ ایک شے کی ہیءت ہر دوسری شے سے جداگانہ ہے ۔

 
یہ عالم، یہ بت خانہَ شش جہات
اسی نے تراشا ہے یہ سومنات

معانی: شش جہات: چھ سمتیں ، کائنات ۔ سومنات: ہندو مندر ۔
مطلب: اور جو یہ دنیا ہے وہ ایک ایسے بتکدے کی مانند ہے جو عملاً چھ سمتوں پر مشتمل ہے ۔ یہ بھی زندگی کی بدولت وجود میں آیا ہے یعنی زندگی کا وجود نہ ہوتا تو دنیا بھی نہ ہوتی ۔

 
پسند اس کو تکرار کی خو نہیں
کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں

معانی: تکرار: جھگڑا ۔ خو: عادت ۔
مطلب: یہ عالم رنگ و بو ایسا ہے جس میں موجود ایک فرد کی شبیہ کسی دوسرے سے نہیں ملتی ۔ کیا یہ حیرت انگیز امر نہیں ہے کہ ہر فرد دوسرے سے عملاً مختلف ہے ۔

 
من و تو سے ہے انجمن آفریں
مگر عینِ محفل میں خلوت نشیں

معانی: انجمن آفریں : مجلس قائم کرنا ۔ عین: درمیان ۔ خلوت نشیں : الگ تھلگ بیٹھنا ۔
مطلب: ہر انجمن سجانے میں زندگی بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور اس کے بغیر آرائش انجمن بھی ممکن نہیں ۔ اس کے باوجود یہ حیرت انگیز بات ہے کہ میری تیری محفل کے دوران بھی وہ تنہائی کے کرب میں مبتلا رہتی ہے اور ہر کہ و مہ کی نظر سے پوشیدہ ہو جاتی ہے ۔

 
چمک اس کی بجلی میں ، تارے میں ہے
یہ چاندی میں ، سونے میں ، پارے میں ہے

مطلب: اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو زندگی عالمی سطح پر بے شمار اشیاء میں مختلف رنگ ڈھنگ سے نظر آتی ہے ۔ کبھی بجلی کے تاروں میں کبھی ستاروں میں اس کی چمک موجود ہوتی ہے اور کبھی چاندی، سونے اور پارے میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے ۔ غرض یہ کہ زندگی اپنے طور پر مختلف اشکال میں موجود ہوتی ہے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کی گہری نظروں سے دیکھا جائے ۔

 
اسی کے بیاباں ، اس کے ببول
اسی کے ہیں کانٹے اسی کے ہیں پھول

معانی: ببول: کانٹے دار درخت کا نام ۔
مطلب:امر واقعہ تو یہ ہے کہ زندگی ہی کی بدولت صحرا اور اس کے کانٹے دار درخت اور پھول نشوونما پاتے ہیں ۔

 
کہیں اس کی طاقت سے کہسار چور
کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور

معانی: چور: ریزہ ریزہ ۔ پھندے: قید ۔
مطلب: زندگی میں اس قدر قوت و استحکام ہے کہ تصادم کی صورت میں پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے ۔ جبرئیل علیہ السلام جیسا فرشتہ اور حوران جنت اگر بالمقابل ہوں تو انہیں بھی اپنے جال میں پھانسنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ انسان میں اگر روحانی قوت موجود ہو تو اس کی رسائی بہشت بریں اور اس میں موجود فرشتوں اور حوروں تک ہو سکتی ہے ۔

 
کہیں جرّہ شاہین سیماب رنگ
لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ

معانی: جرہ شاہین: بہادر باز ۔ سیماب رنگ: پارے جیسا ۔ آلودہ: بھرا ہوا ۔ چنگ: پنجے ۔
مطلب: کہیں اس امر کا امکان بھی ہوتا ہے کہ زندگی سے بھرپور کوئی لشکر اور اس کا سپہ سالار اپنے سے کمزور سلطنتوں کے خلاف خوں ریز جنگ کے بعد شکست فاش دے کر ان پر اپنا قبضہ جما لیتے ہیں اور ان پر اپنا اقتدار مستحکم کرنے کی فکر کرتا ہے ۔

 
کبوتر کہیں آشیانے سے دور
پھڑکتا ہوا جال میں ناصبور

معانی: آشیانے: گھونسلا ۔ ناصبور: بے صبر ۔
مطلب: کہیں زندگی ایسی بالادست حیثیت میں ظاہر ہوتی ہے کہ اپنی ذہانت سے حریفوں کو اپنے دام میں گرفتار کر لیتی ہے ۔ غرض زندگی ہی وہ قوت ہے جو ہر شے پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی اہل ہوتی ہے ۔

 
فریبِ نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہَ کائنات

معانی: فریب نظر: نظر کا دھوکا ۔ سکون و ثبات: ٹھہراوَ ۔
مطلب: اس بند کے اشعار میں علامہ اقبال مزید ایک قدم آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی فکر و نظر میں زندگی کی کچھ ایسی حقیقتیں بھی ہیں جو عمومی سطح پر انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ رہتی ہیں ۔ چنانچہ ان اشعار میں وہ اسی نوعیت کے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔ چنانچہ ان کے مطابق زندگی میں کہیں کہیں جو یہ سکون اور ٹھہراوَ سا نظر آتا ہے یہ تو دھوکے سے سوا اور کچھ نہیں اس لیے کہ فی الواقع حرکت ہی حقیقی زندگی ہے ۔ بے شک ظاہر بیں آنکھ اس مرحلے تک نہ پہنچ سکے ۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ کائنات کا ہر ایک ذرہ اضطراب سے دوچار ہے اور حرکت میں ہے ۔

 
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود

معانی: کاروانِ وجود: دنیاوی زندگی ۔ شانِ وجود: اللہ کی موجودگی کی شان ۔
مطلب: اس پس منظر میں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ انسانی وجود بھی ہر لمحے متحرک رہتا ہے اور مختلف جہتوں سے ہم کنار رہتا ہے ۔

 
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی

مطلب: اے دانشمند انسان حیرت ہے کہ تو اب بھی زندگی کو ایک ایسا راز تصور کرتا ہے جو افشاء نہیں ہوتا حالانکہ یہ بنیادی حقیقت ہے کہ زندگی تو بلند پروازی اور عروج و ارتقاء سے عبارت ہے ۔

 
بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند

معانی: پست و بلند: نیچا اونچا ۔
مطلب: جان لے کہ زندگی تو بے شمار بلندیوں اور پستیوں سے ہو کر گزرتی ہے حرکت اور گردش اس کی سرشت ہے اس کو تو منزل تک رسائی سے زیادہ سفر اور گردش ہی پسند ہے ۔ وہ کسی پڑاوَ پر رکنے کا نام نہیں لیتی بلکہ ہمیشہ متحرک رہتی ہے ۔

 
سفر زندگی کے لیے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت، حضر ہے مجاز

معانی: برگ و ساز: سامان ۔ حقیقت: اصل ۔ حضر: گھر میں قیام ۔ مجاز: غیر حقیقی ۔
مطلب: جہاں تک سفر کا تعلق ہے سو وہ زندگی کو متحرک اور برسر عمل رکھنے کا دوسرا نام ہے اسی لیے سفر کو ایک حقیقت بھی تصور کر لینا چاہیے اور مجاز بھی، کہ سفر کی یہ دونوں صورتیں زندگی کے ہی بلاشبہ دو رخ ہیں ۔

 
الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے
تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے

مطلب: ہنگامہ خیزی، کشمکش اور ہر نوع کی آویزش دیکھا جائے تو ایسے عوامل ہیں جو زندگی کے لیے باعث سکون ہوتے ہیں ۔ وہ اسی صورت میں عروج و ارتقاء کی منازل طے کر سکتی ہے کہ معروضی حالات کا دلیری اور جرات مندی کے ساتھ مقابلہ کرے ۔ صرف مقابلہ ہی نہیں بلکہ ان پر غلبہ حاصل کرنے کی سعی بھی کرے ۔

 
ہُوا جب اسے سامنا موت کا
کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا

مطلب: اقبال کے بقول زندگی کی اصل حریف موت ہے اور جس مرحلے پر اسے موت کا سامنا کرنا پڑا تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس سے مقابلہ بڑا سخت تھا ۔ اس کے باوجود یہ زندگی میں جرات و ہمت و حوصلہ ہی تھے کہ اس نے بالاخر موت کو شکست سے ہم کنار کر دیا ۔

 
مذاقِ دُوئی سے بنی زوج زوج
اٹھی دشت و کہسار سے فوج فوج

معانی: زوج زوج: جوڑا جوڑا ۔
مطلب: فطرت کے ساتھ امتزاج کے سبب زندگی جنگلوں اورر پہاڑوں میں اپنے تخلیقی رویے کے ساتھ فوج کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔

 
گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے
اسی شاخ سے پھوٹتے بھی رہے

معانی: چنانچہ زندگی کو اگر کسی پودے کی شاخ تصور کر لیا جائے تو ایک جانب تو پھول اسی شاخ سے ٹوٹتے رہے دوسری طرف اسی شاخ سے پھولوں کی نمود ہوئی ۔ مراد یہ ہے کہ زندگی کا دوہرا عمل یہ ہے کہ اس ہاتھ سے دیتی ہے تو دوسرے ہاتھ سے لے لیتی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ اس شعر میں اقبال نے مسئلہ آواگون کا اشارتاً ذکر کیا ہے ۔

 
سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات
ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقشِ حیات

معانی: بے ثبات: فانی ۔
مطلب: سچی بات تو ہے کہ جو نادان اور احمق لوگ ہیں وہ زندگی کو ناپائیدار اور فانی قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ زندگی تو ایسا نقش ہے جو مٹ مٹ کر ابھرتا ہے ۔ یہ تو ایسی حقیقت ہے جو موت سے ہمکنار ہو کر بھی زندہ اور جاوداں رہتی ہے ۔

 
بڑی تیز جولاں ، بڑی زود رس
ازل سے ابد تک رمِ یک نفس

معانی: جولاں : دوڑنے والی ۔ زودرس: جلد پہنچنے والی ۔ ازل: آغازِ کائنات ۔
مطلب: جان لے ! کہ زندگی اس قدر تیز رفتار ہے جو آج کی آن میں اس منزل تک رسائی حاصل کر لیتی ہے جو اس کی مطلوبہ منزل ہو ۔ یہ تو ایسی حقیقت ہے جس نے آغاز کائنات سے سانس کی آمد وشد کے حوالے سے اپنے وجود کا ثبوت پیش کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ زندگی ہمیشہ قائم و دائم رہے گی ۔ موت قطعی طور پر اس کے ہم پلہ نہیں ہو سکتی ۔

 
زمانہ کہ زنجیرِ ایام ہے
دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے

مطلب: زمانہ تو دنوں ، مہینوں اور سالوں کے باہمی تسلسل کا دوسرا نام ہے اسی لیے یہ رواں دواں اور متحرک زندگی کی دوسری صورت ہے ۔

 
یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے، تلوار کی دھار ہے

معانی: موجِ نفس: سانس کی لہر ۔ خودی: اپنے آپ کی پہچان ۔
مطلب: اگر انسان کے سانس کو ایک تلوار تصور کر لیا جائے تو پھر خودی کو اس تلوار کی دھار سمجھ لینا چاہیے اور اس حقیقت کی وضاحت کی زیادہ ضرورت بھی نہیں ہے کہ دھار کے بغیر تلوار کند اور بے مصرف ہو کر رہ جاتی ہے ۔ اس شعر سے مراد یہ ہے کہ خودی ہی دراصل روح حیات ہے اس کے بغیر زندگی کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔

 
خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات 

معانی: رازِ دروں : اندرونی بھید ۔ بیداریِ کائنات: ساری دنیا کا جاگ اٹھنا ۔
مطلب: اس شعر میں بھی علامہ خودی کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خودی ایک ایسا راز ہے جسے زندگی نے محفوظ اور پوشیدہ رکھا ہوا ہے اور یہ خودی ہی ہے کہ پوری کائنات کو بیداری کا پیغام دیتی ہے ۔ جس طرح بے شعور انسان کا وجود بے معنی ہے اسی طرح کائنات خودی سے خالی ہو تو بے مقصد اور بے معنی بن کر رہ جاتی ہے ۔

 
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند

معانی: بدمست: بے ہوش ۔ خلوت پسند: الگ
مطلب: جلوت اور خلوت دونوں صورتوں میں خودی اپنا کمال دکھاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ خودی کی شکل میں سمندر ہے جو محض ایک قطرہ میں بند ہے ۔ مراد یہ ہے کہ خودی تو ایک ایسا جوہر ہے جو پوری زندگی پر محیط ہے ۔

 
اندھیرے اجالے میں ہے تابناک
من و تو میں پیدا، من و تو سے پاک

معانی: تابناک: چمکدار ۔
مطلب: خودی کی روشنی محض تاریکی ہی کو نہیں اجالے کو بھی زیادہ تابناک بنا دیتی ہے ۔ یعنی خودی عملاً اندھیرے اجالے کا امتیاز کئے بغیر دونوں صورتوں میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے ۔ اور کوئی شے اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی ۔ خودی تو کثرت و وحدت میں یکساں طور پر نمودار ہوتی ہے اس کے باوجود ان دونوں عناصر سے خود کو علیحدہ رکھتی ہے ۔

 
ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے
نہ حد اس کی پیچھے نہ حد سامنے

معانی: اقبال کا نقطہ نظر یہ ہے کہ خودی کا وجود آغاز کائنات سے پہلے بھی تھا اور آئندہ روز حشر تک برقرار رہے گا ۔ عملاً خودی کے نزدیک ہر دو زمانوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔

 
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی

معانی: ستم: ظلم ۔ موجوں : لہروں ۔
مطلب: مذکورہ صلاحیتوں کے باوجود اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ زمانہ ایک دریا کی مانند ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ خودی ایک ایسا مظلوم جذبہ ہے جو اس دریا میں بہتا ہوا دریا سے پیدا ہونے والی اور بپھری ہوئی موجوں کے مظالم سہہ رہا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جذبہ خودی ناقدری زمانہ سے متصادم ہو رہا ہے ۔

 
تجسّس کی راہیں بدلتی ہوئی
دمادم نگاہیں بدلتی ہوئی

معانی: تجسس: تلاش ۔ دمادم: لگاتار ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ خودی کی تلاش عملاً بڑا مشکل مسئلہ ہے کہ اس تک رسائی کے لیے طرز عمل حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے ۔ اور اس طرز عمل کی طرح نظروں میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے ۔ مرا د یہ ہے کہ خودی کو درجہ کمال تک پہنچنے کے لیے انتہائی کٹھن اور پیچیدہ راستوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔

 
سبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراں
پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں

معانی: سبک: بے وزن ۔ سنگِ گراں : بھاری پتھر ۔ ضربوں : چوٹوں ۔ ریگِ رواں : چلتی ہوئی ریت ۔
مطلب: اور جب اس عمل کے بعد خودی ایک مستحکم اور پر قوت جذبہ بن کر ابھرتا ہے تو بھاری پتھر بھی اس کے لیے سبک اور بے وزن ہو کر رہ جاتا ہے حتیٰ کہ اس کی ضربوں سے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو کر ریت میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ یہاں اقبال کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جب خودی کا جذبہ مستحکم ہو جاتا ہے تو بڑی سے بڑی شے بھی اس کے سامنے ہیچ ہوتی ہے ۔

 
سفر اس کا انجام و آغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے

معانی: تقویم: جنتری ۔
مطلب: گذشتہ بند کے بعض اشعار کی طرح یہاں بھی سفر کو حرکت کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے کہ سفر خودی کا آغاز بھی ہے اور انجام بھی کہ اس کے استحکام کا راز بھی سفر میں مضمر ہے ۔ دراصل سفر سے یہاں مراد حرکت اور جدوجہد ہے کہ حرکت اور جدوجہد کے بغیر منزل تک رسائی مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتی ہے ۔

 
کرن چاند میں ہے، شرر سنگ میں
یہ بے رنگ ہے ڈوب کر رنگ میں

معانی: شرر: چنگاری ۔ بے رنگ: رنگ کے بغیر ۔
مطلب: خودی کا جذبہ چاند میں کرن کی صورت اختیار کر لیتا ہے اسی طرح وہ پتھر میں چنگاری کا روپ دھار لیتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رنگ میں غوطہ لگانے پر بھی وہ بے رنگ ہی رہتی ہے ۔ یعنی مختلف اشیاء میں موجود ہونے کے باعث وہ اپنی انفرادیت برقرار رکھتا ہے اور دوسری اشیاء میں گم ہو کر نہیں رہ جاتا اس لیے کہ جذبہ مادی نہیں بلکہ روحانی ہے ۔

 
اسے واسطہ کیا کم و بیش سے
نشیب و فراز و پس و پیش سے

معانی: بیش: زیادہ ۔ نشیب: پستی ۔ فراز: بلندی ۔
مطلب: خودی کو بلندی و پستی اور کمی و زیادتی سے کوئی واسطہ نہیں اس لیے کہ اس کا مادی اشیاء سے کوئی تعلق نہیں ۔

 
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر

معانی: کشمکش: کھینچاتانی ۔ صورت پذیر: شکل بننا ۔
مطلب: آغاز کائنات سے خودی کشمکش میں مبتلا رہی ہے کہ اس کا حقیقی مسکن کہاں ہے بالاخر اس پر انکشاف ہوا کہ آدم خاکی کا جسم ہی اس کی پناہ گاہ بن سکتا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ انسان اور صرف انسان ہی خودی کی اہمیت سے آگاہ ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری شے اس کے مقام و مرتبہ کا اندازہ کرنے کی قطعی اہل نہیں ۔

 
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

مطلب: جس طرح مختصر اور محدود سی آنکھ آسمان کی وسعتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اسی طرح سے یہ جان لینا چاہیے کہ خودی کا حقیقی مقام دل ہے اور یہ کہ انسان خودی میں ڈوب کر ہی کائنات کے علاوہ اپنی ذات کے داخلی بھید پا سکتا ہے ۔

 
خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب
وہ ناں جس سے جاتی رہی اس کی آب

معانی: زہرناب: زہر جیسی ۔ ناں : روٹی ۔
مطلب: اقبال نے اس بند کے اشعار میں فلسفہ خودی کے محاسن اور اوصاف کو واضح کرنے کی سعی کی ہے ۔ عملاً یہ موضوع ان کا پسندیدہ ہے جس کے حوالے سے بے شمار اشعار اور نظمیں انھوں نے تخلیق کی ہیں چنانچہ فرماتے ہیں کہ جذبہ خودی کو اوج کمال پر پہنچانے کے لیے لازم ہے کہ خودی کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والا شخص رزق حلال سے خود کو آسودہ کرے اس لیے رزق حرام اور ناجائز کمائی سے تو خودی کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔

 
وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند
رہے جس سے دنیا میں گردن بلند

معانی: ارجمند: باعزت ۔
مطلب: اس شعر میں بھی اقبال سابقہ شعر کے مضمون کا اعادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کے لیے رزق حلال ہی عظمت و سربلندی کا سبب بنتا ہے ۔ یہی اس کی خودی کا کمال ہے ۔ اسی مضمون کو انھوں نے قدرے مختلف انداز میں اس طرح بیان کیا ہے اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

 
فروفالِ محمود سے درگزر
خودی کو نگہ رکھ، ایازی نہ کر

معانی: فروفال: شان و شوکت: محمود: غزنوی ۔ ایاز: ایاز سے جو محمود غزنوی کا غلام تھا ۔
مطلب: سلطان محمود غزنوی ہر چند کہ بڑا جلیل القدر اور بہار سلطان تھا ۔ اس کے باوجود زندگی میں کامرانی کے لیے لازم ہے کہ اس کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی خودی کو بروئے کار لایا جائے ۔ ایسا نہ کیا گیا تو ایاز کی طرح غلامی مقدر بن جائے گی ۔

 
وہی سجدہ ہے لائق اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام

معانی: حق تعالیٰ کی بارگاہ میں سربسجود ہونے کے سوا غیر خدا کے لیے کسی سجدے کا اہتمام باعث قدر و تحسین نہیں ہوتا کہ یہ تو غلامی و کفر کے مترادف ہو گا ۔ خودی کی تکمیل کے لیے یہی عمل ضروری اور ناگزیر ہے ۔

 
یہ عالم یہ ہنگامہَ رنگ و صوت
یہ عالم کہ ہے زیرِ فرمانِ موت

مطلب: یہ دنیا جو بظاہر رنگ و روشنی اور آوازوں کی غنائیت سے ہم آہنگ ہے عملاً اس کا وجود فنا سے عبارت ہے یعنی تمام حسن و رنگ کے باوجود بالاخر ہر شے کو فنا کے گھاٹ اترنا ہے ۔

 
یہ عالم، یہ بُت خانہَ چشم و گوش
جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش

معانی: چشم: آنکھ ۔ گوش: کان ۔ خوردونوش: کھانا پینا ۔
مطلب: اس شعر میں کہا گیا ہے کہ یہ دنیا تو وہ مقام ہے جہاں کچھ کہا جائے اس کو سن لیا جائے اور جس شے کا نظارہ ہو اس کو خامشی کے ساتھ دیکھا جائے کہ یہاں جو زندگی رواں دواں ہے وہ محض خوردونوش تک محدود ہی نہیں اس کی محتاج بھی ہے ۔

 
خودی کی یہ ہے منزلِ اوّلیں
مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں

مطلب: یہ دنیا تو بلاشک و شبہ جذبہ خودی کی پہلی منزل ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بے معنی بات نہ ہو گی کہ یہاں تو انسان ہر دم مسافرت میں ہے اس کا کوئی مستقل گھر اورر ٹھکانہ نہیں ہے ۔

 
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے، تو جہاں سے نہیں

معانی: خاکداں : دنیا ۔
مطلب: اے زمینی باشندے یہ بھی جان لے کہ تجھ میں جو حرارت ہے وہ اس دنیا کی خاک کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ خالق کل نے تو یہ جہاں تیرے لیے ہی تخلیق کیا ہے اور تو کسی مرحلے پر بھی اس کا دست نگر نہیں ہے ۔

 
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر

معانی: کوہِ گراں : بھاری پہاڑ ۔ طلسم: جادو ۔ زماں : زمانہ ۔
مطلب: لہذا تیرے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ اپنے وجود کو زندہ برقرار رکھنے کی راہ میں حائل تمام پابندیوں کو توڑ کر اپنی منزل تک رسائی کے لیے آگے بڑھتا جا اور زمان و مکان کے طلسم کو توڑ کر اپنی خودی کو اوج کمال تک لے جا ۔

 
خودی شیرِ مولا، جہاں اس کا صید
ز میں اس کی صید، آسماں اس کا صید

معانی: شیرِ مولا: شیرِ خدا حضرت علی علیہ السلام مراد ہیں ۔ صید: شکاری ۔
مطلب: خودی تو خدائے ذوالجلال کے تخلیق کردہ ایسے شیر کی مانند ہے جس کا شکار یہ تمام تر عالم رنگ و بو ہے جیسے مولا ئے کائنات حضرت علی شیر خدا ہیں ۔ اس شیر کی گرفت تو زمین اور آسمان دونوں پر ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جس نے اپنی خودی کو عروج پر پہنچا دیا اس نے کل کائنات کو تسخیر کر لیا ۔

 
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود

معانی: بے نمود: پوشیدہ ۔
مطلب: یہ بھی جان لے کہ اس جہان فانی کے علاوہ دنیائیں اور بھی ہیں جو ابھی تک ہماری بصیرت کی گرفت میں نہیں آ سکیں تاہم ضمیر وجود خلا کا متحمل نہیں ہو سکا ۔ چنانچہ اگر خودی پایہ تکمیل تک پہنچ جائے تو ہر ان دیکھی دنیا کا ادراک خارج از امکان نہیں رہتا ۔

 
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخیِ فکر و کردار کا

معانی: یلغار: حملہ ۔
مطلب: شاید یہ امر خلاف حقیقت نہ ہو کہ ہر ان دیکھی دنیا تیری یورش کی منتظر ہے کہ کب تو اپنی فکر و دانش کے علاوہ جذبہ خودی کے طفیل کب اس کو مسخر کرتا ہے ۔ تیرا کردار اور عمل ہی اس کی تسخیر کر سکتا ہے ۔

 
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار

مطلب: اور یہ جو کائنات کا نظام ہر لمحے متحرک رہتا ہے اور گردش میں مصروف رہتا ہے اس کا مدعا ہی یہ ہے کہ تیری خودی کے سارے بھید تجھ پر کھل جائیں اور تو اپنی حقیقی منزل پانے کا اہل ہو سکے ۔

 
تو ہے فاتحِ عالم خوب و زشت
تجھے کیا بتاؤں تری سرنوشت

معانی: خوب: اچھا ۔ زشت: برا ۔ سرنوشت: داستان ۔
مطلب: اب تجھے کیسے سمجھاؤں کہ قدرت نے تیری تخلیق کس مقصد کے لیے کی ہے ۔ پہلے تو یہ جان لے کہ دنیا اچھی ہے یا بری تجھے تو اس پر اپنا تسلط جمانے کے لیے بھیجا گیا ہے ۔

 
حقیقت پہ ہے جامہَ حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ، گفتار زنگ

معانی: حقیقت: اصل ۔ زنگ: میل ۔
مطلب: سچ تو یہ ہے کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں ۔ سچائی اور حقیقت تو آئینے کی مانند ہے اور ان پر تفصیلی گفتگو اس آئینے پر گرد کی طرح سے ہے ۔

 
فروزاں ہے سینے میں شمعِ نفس
مگر تابِ گفتار کہتی ہے بس

معانی: فروزاں : چمکدار ۔
مطلب: پھر خدشہ اس امر کا بھی ہے کہ اگر اپنی حدود سے بڑھتے ہوئے عشق حقیقی کے راز افشاء کر دوں تو قادر مطلق کو یہ گوارا نہ ہوگا اور وہ مجھ جلا کر خاک کر دے گا ۔

 
اگر یک سرِ مُوے برتر پرم
فروغِ تجلّی بسوزد پرم

مطلب: واقعہ معراج میں جب سدرۃ المنتہا پر پہنچے تو جبرئیل نے آگے جانے سے انکار کر دیا کہ آگے اگر بال برابر بھی بڑھوں گا تو اللہ کے نور کی کثرت سے مرے پر جل جائیں گے ۔ ( شیخ سعدی کا شعر ہے)