شام و فلسطین
رندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت پُر ہے مئے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا
معانی: ملک شام اور ملک فلسطین پہلے سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے لیکن پہلی جنگ عظیم میں ترکوں اور جرمنوں کی شکست کے بعد شام پر فرانسیسیوں نے اور فلسطین پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا تھا ۔ رندان فرانسیس: فرانس کے رہنے والے شرابی ۔ میخانہ: شراب خانہ ۔ سلامت: قائم ۔ پر ہے بھرا ہوا ہے ۔ مے گلرنگ : گلاب کے رنگ کی شراب ۔ شیشہ: پیالہ، صراحی ۔ حلب: شام کا ایک شہر، یہ شہر شیشے بنانے کے لیے مشہور تھا ۔
مطلب: سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں شام ایک بڑا ملک تھا جس میں فلسطین اور لبنان اور اردن کے کچھ حصے بھی شام تھے ۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اسے تقسیم کر دیا گیا اور یہاں یورپ کے شرابی آ گئے ۔ اور انھوں نے ان ملکوں کے شہروں کو بھی شراب خانوں سے آشنا کر دیا اور لوگوں کو شراب اور بے حیائی پر لگا دیا ۔ ان حالات کو دیکھ کر علامہ طنز کے طور پر کہتے ہیں کہ فرانس کے شرابیوں کے شراب خانے سلامت رہیں جن کے شام میں آنے سے شام کے شہر بھی شراب خانوں میں تبدیل ہو گئے ہیں حلب کا وہ شہر جو پہلے شیشے بنا نے میں مشہور تھا اب شراب کے شیشوں یعنی پیالوں اور صراحیوں کو بنانے لگا ہے اور شراب ان شرابیوں نے پورے ملک شام میں عام کر دی ہے ۔
ہے خاکِ فلسطین پر یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
معانی: خاک فلسطیں : فلسطین کی سرزمین ۔ ہسپانیہ: یورپ کے ایک ملک جسے سپین بھی کہتے ہیں اور مسلمانوں کی حکمرانی کے دوران جس کا نام اندلس تھا ۔ یہاں مسلمانوں نے ساتھ آٹھ سو سال تک حکومت کی ہے جس کے بعد یورپ کے عیسائیوں نے ان کو یا قتل کر دیا یا ملک سے مار بھگایا ۔
مطلب: اہل مغرب نے اس بات کو بہانہ بنا کر کہ کبھی فلسطین میں یہودی آباد تھے اور یہ یہودی کا ابتدائی گھر تھا جہاں سے وہ نکالے گئے ہیں فلسطین کو اسرائیل کے نام پر یہودیوں کو دے دیا گیا ہے ۔ اقبال کے زمانے میں ابھی یہ تجویزہو رہی تھی اقبال کہتے ہیں کہ اس فارمولے کے تحت اسپین پر عربوں کا حق ہونا چاہیے کیونکہ عرب بھی وہاں سات آٹھ سو سال سے حکمران تھے اور وہاں کے صدیو ں سے باشندے تھے اور ان کو بھی وہاں سے نکال دیا گیا یا عیسائی بنا لیا گیا ۔ اس لیے اسپین کا ملک عربوں کو دیا جانا چاہیے ۔
مقصد ہے ملوکیتِ انگلیس کا کچھ اور قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا
معانی: ملوکیت انگلیس: انگریزی حکومت ۔ نارنج: سنگترے ۔ رطب: کھجور ۔
مطلب: انگریزی حکومت کا فلسطین میں یہودیوں کو بسانا اس لیے نہیں ہے کہ ان کے ذریعے یہاں کے سنگتروں ، شہد اور کھجوروں کی فصلوں سے فائدہ اٹھایا جائے بلکہ مقصود یہ ہے کہ یہودیوں کو یہاں بسا کر ان کے ذریعے سارے عربوں میں پھوٹ ڈالی جائے اور جملہ ممالک اسلام کو ڈرایا اور دھمکایا جائے جیسا کہ اسرائیل بننے کے بعد ثابت ہو چکا ہے ۔ اور اہل مغرب یہودیوں کے ذریعے مسلمان ملکوں میں افراتفری پھیلانے کا ہر کام لے رہے ہیں ۔