(۴)
لاؤں وہ تنکے کہاں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بیتاب ہوں جن کو جلانے کے لیے
معانی: بیتاب: بے چین ۔
مطلب: بقول اقبال اپنے گھر کی تعمیر کے لیے ایسے افراد کو جمع کر رہا ہوں جو ہمت اور پامردی کے ساتھ ان عناصر کے خلاف صف آرا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں جو اس گھر کی تخریب کے درپے ہیں ۔
وائے ناکامی فلک نے تاک کر توڑا اسے میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے
معانی: فلک: آسمان ۔ تاک کر: نشانہ باندھ کر ۔ تاڑا: دیکھا ۔
آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد دو ملت سے تری ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے
معانی: ہفتا دو دو ملت: بہتر فرقے، مراد دنیا کے مختلف مذاہب ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال افراد کی وسعت قلبی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اگر ہم سب مذاہب کو ایک ہی نظر سے دیکھیں تو اختلاف اور تفرقہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔
دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے
معانی: لوٹ جانا: تڑپ جانا ۔
مطلب: میری محرومی کا یہ عالم ہے کہ میں نے اپنا آشیانہ بنانے کے لیے جس شاخ کا انتخاب کیا تھا فلک کج رفتار نے اسی شاخ کو مشق ستم بنایا ۔
جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے
پاس تھا ناکامیِ صیاد کا اے ہم صفیر ورنہ میں اور اُڑ کے آتا ایک دانے کے لیے
معانی: ہم صفیر: ساتھ چہچہانے والا، ساتھی پرندہ ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے کسی دوست کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ فی الوقت مجھے اپنے دشمن کی ناکامی کا پاس تھا ورنہ کسی پرندے کی طرح میں محض ایک دانے کی خاطر اپنی آزادی سے کیوں محروم ہوتا ۔
اس چمن میں مرغِ دل گائے نہ آزادی کا گیت آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے
مطلب: اس آخری شعر میں کہا گیا ہے کہ میرے وطن کی حالت زار ایسی ہے کہ یہاں آزادی کے ترانے الاپنا بے معنی سی بات ہے ۔