Please wait..

پروانہ اور جگنو
پروانہ

 
پروانے کی منزل سے بہت دُور ہے جگنو
کیوں آتشِ بے سوز پہ مغرور ہے جگنو

مطلب: اقبال یہاں اپنی تخیلی قوت کے حوالے سے پروانے اور جگنو کو ایک ہی مقام پر لے آتے ہیں ۔ اس شعر میں جگنو کو مخاطب کرتے ہوئے پروانہ یوں گویا ہوتا ہے کہ میری فطرت تو شمع کی روشنی پر قربان ہو کر مر مٹنے کی ہے جب کہ تجھ میں قطعی طور پر ایسی صلاحیت موجود نہیں ہے ۔ تیرے پروں سے تو ایسی آگ برآمد ہوتی ہے جس میں حدت اور حرارت بھی نہیں ہوتی اس اعتبار سے تیرا وجود محض ایک بیکار جنس کے سوا اور کچھ نہیں ۔

جگنو

 
اللہ کا سو شکر، کہ پروانہ نہیں میں
دریوزہ گرِ آتشِ بیگانہ نہیں میں

معانی: دریوزہ گر: مانگنے والا ۔ آتش: آگ ۔
مطلب: اس مکالمے اور الزام تراشی پر کسی قسم کی برہمی کا اظہار کئے بغیر جگنو، پروانہ سے مخاطب ہو کر یوں جواب دیتا ہے کہ تو محض روشنی پر جل مرنے کے عمل پر نازاں ہے ۔ اسی باعث میں پروردگار کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے تجھ جیسا نہیں بنایا ۔ میں تو خود اپنی روشنی سے فضا کو منور کرتا ہوں اور تیری طرح دوسروں کی روشنی پر مر مٹنے کا قائل نہیں ۔ مراد یہ ہے کہ ہر جاندار کی بنیادی خصوصیت اس کا ذاتی جوہر ہی ہوتا ہے ۔