Please wait..

محراب گل افغان کے افکار
(۲۰)

 
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہَ صحرائی یا مردِ کہستانی

معانی: فطرت: قدرت ۔ مقاصد: مقصد کی جمع ۔ نگہبانی: حفاظت ۔ بندہَ صحرائی: ریگستان میں یا بیابان میں رہنے والا ۔ مرد کہستانی: پہاڑی سلسلوں میں رہنے والا ۔
مطلب: محراب گل چونکہ خود پہاڑوں میں رہتا تھا اس لیے اسے اس بات کا مشاہدہ تھا کہ قدرت یہاں بے نقاب ہے اور قدرت کے جو مقصد ہیں وہ بھی لوگوں کی نگاہوں کے سامنے یہاں ظاہر ہیں ۔ شہروں اور آبادیوں میں لوگوں کو یہ بات میسر نہیں ہے قدرت کے جو مقصد ہیں ان کی حفاظت صرف ریگستان یا بیابان یا پہاڑ میں رہنے والے لوگ ہی کر سکتے ہیں کیونکہ وہی ان سے واقف ہوتے ہیں ۔

 
دنیا میں محاسب ہے تہذیبِ فسوں گر کا
ہے اس کی فقیری میں سرمایہَ سلطانی

معانی: محاسب: حساب کرنے والا ۔ تہذیب فسوں گر: جادو کرنے والی تہذیب ۔ سرمایہ سلطانی: شاہی دولت ۔
مطلب: یورپ کی تہذیب نے لوگوں پر جو جادو کر رکھا ہے اوراس کی ظاہری چمک دمک میں آ کر جس طرح لوگ خود کو بھول چکے ہیں اس کا حساب کتاب کرنا یا اس کی باز پرس کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس تہذیب سے بے خبر ہیں اور جن پر اس کا کوئی اثر نہیں اور ایسے لوگ صرف وہ ہوتے ہیں جو قدرت کے مقاصد کی حفاظت صحراؤں اور پہاڑوں میں رہ کر کرتے ہیں ۔ ایسے ہی فطرت شناس لوگوں میں وہ درویش پیدا ہوتا ہے جس کی درویشی میں عہد حاضر کی جادو بھری تہذیب کی باز پرس کرنے کی اہلیت ہوتی ہے ۔ اس کے فقر میں شاہی دولت چھپی ہوتی ہے یعنی وہ فقیری میں بھی شاہانہ شان رکھتا ہے ۔

 
یہ حسن و لطافت کیوں  وہ قوت و شوکت کیوں 
بلبل چمنستانی، شہباز بیابانی

معانی: بلبل چمنستانی: باغ کی بلبل ۔ شہباز بیابانی: بیابانوں میں رہنے والا شاہین ۔
مطلب: اس سے پہلے شعروں میں شاعر نے دوقسم کے طبقات کا ذکر کیا ہے ۔ ایک طبقہ وہ ہے جو تہذیب جدید کے جادو میں آ چکا ہے ۔ اس کو شاعر نے باغ کی بلبل سے تشبیہ دی ہے جہاں حسن بھی ہوتا ہے اور ملائمت بھی ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو فطرت کے قریب رہتا ہے اور اسکے مقاصد کی حفاظت کرتا ہے ایسے طبقہ کے لوگوں کو شاعر نے بیابان کے شاہین سے تشبیہ دی ہے جس میں طاقت بھی ہوتی ہے اور شکوہ بھی ہوتا ہے ۔ ان دو طبقات کے موازنے سے شاعر یہ ثابت کرنا چاہتے ہے کہ باغ میں رہنے والی اور حسن و ملائمت کو پسند کرنے والی بلبل بیابان میں رہنے والے شاہین سے کم تر ہوتی ہے ۔

 
اے شیخ بہت اچھی مکتب کی فضا لیکن
بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی

معانی : مکتب: مدرسہ ۔ شیخ: استاد مدرسہ ۔ فاروقی: حضرت عمر فاروق جیسی سلطنت ۔ سلمانی: حضرت سلمان فارسی جیسی درویشی ۔
مطلب: شہروں اور بیابانوں کی فضاؤں اور ان میں رہنے اور پلنے والوں میں جس فرق کا اوپر کے شعروں میں ذکر ہوا ہے اس کو آگے بڑھاتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ اے استاد مدرسہ! میں مانتا ہوں کہ جدید مدرسوں کا ماحول ظاہری طور پر بہت اچھا ہے اور مغربی تہذیب و ثقافت کا اثر لیے ہوئے تعلیم بظاہر بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن ان مدرسوں کی فضا میں مغربی ذہن رکھنے والے تو پیدا ہو سکتے ہیں لیکن حکمرانی ہوتے ہوئے حضرت عمر فاروق جیسی خصوصیات اور درویش ہوتے ہویے حضرت سلمان فارسی جیسی صفات رکھنے والے پیدا نہیں ہوتے ۔ ایسے لوگ صرف بیابانوں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں فطرت بے نقاب ہوتی ہے اور جہاں کے لوگ فطرت کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہیں نہ کہ یورپ اور اہل یورپ کے مقاصد کو ۔

 
صدیوں میں کہیں پیدا ہوتا ہے حریف اس کا
تلوار ہے تیزی میں صہبائے مسلمانی

معانی: صدیوں میں : سینکڑوں برسوں میں ۔ حریف: مدمقابل ۔ صہبائے مسلمانی: مسلمانی کی شراب ۔
مطلب: تہذیب جدید کے مے خانہ کی شراب آدمی کی زندگی کی تلوار کو کند کرتی ہے اور اس میں جو انسانی قدریں ہوتی ہیں ان کو پامال کرتی ہے لیکن جو شراب مے خانہ اسلام سے پی جاتی ہے وہ اس کی زندگی کی تلوار میں تیزی پیدا کرتی ہے اوراس میں ایسی مسلمانی اقدار پیدا کرتی ہے جو ایک صحیح مسلمان کا شیوہ ہے لیکن ایسی شراب اسلام پی کر مسلمانی کے صحیح منصب پر فائز شخص سینکڑوں سالوں میں کہیں جا کر پیدا ہوتا ہے اور جب پیدا ہوتا ہے تو اپنے زمانے کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے ۔