موجِ دریا
مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بے تاب مجھے عینِ ہستی ہے تڑپ صورتِ سیماب مجھے
معانی: مضطرب: بے چین ۔ عینِ ہستی: مراد حقیقی طور پر زندگی ۔ صورتِ سیماب: پارے کی طرح ہر دم ہلتے تڑپتے رہنا ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال نے موج دریا کی زبان سے ایک مکالمے کو اپنی اس تخلیق کا موضوع بنایا ہے ۔ ان کے بقول دریا یوں گویا ہوتا ہے کہ میرا بے چین دل ہر لمحے مجھے مضطرب رکھتا ہے اس لیے کہ پارے کی مانند تڑپ اور متحرک رہنا ہی میری حقیقی زندگی ہے ۔
موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے ہو نہ زنجیر کبھی حلقہَ گرداب مجھے
معانی: پایاب: مراد بہت کم گہرا ۔ زنجیر: مراد رکاوٹ ۔ حلقہَ گرداب: بھنور کا چکر ۔
مطلب: میرا نام موج ہے اور سمندر کا گہرا پانی میرا ذخیرہ ہے جس میں رونما ہونے والے بھنور عملی سطح پر میرے لیے زنجیر نہیں بن سکتے ۔ اس لیے کہ میں طبعاً آزاد ہوں اور کوئی پابندی میرے لیے ناقابل قبول ہے ۔ اس سبب کوئی شے میری راہ میں کسی طور پر بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔
آب میں مثل ہوا جاتا ہے توسَن میرا خارِ ماہی سے نہ اَٹکا کبھی دامن میرا
معانی:آب: پانی ۔ توسَن: وہ گھوڑا جسے سدھیایا نہ گیا ہو ۔ خارِ ماہی: مچھلی کا کانٹا ۔ دامن: قمیص کا نچلا حصہ ۔
مطلب: میں پانی میں تیز گھوڑے کی مانند ہوا کی رفتار سے سفر کرتی ہوں ۔ اس سفر کے دوران وہ مچھلی بھی میری راہ میں حائل نہیں ہو سکتی جس کی پشت پر ایک بڑی ہڈی ہوتی ہے ۔
میں اچھلتی ہوں ، کبھی جذبِ مہِ کامل سے جوش میں سر کو ٹپکتی ہوں کبھی ساحل سے
معانی: جذب: کشش ۔ مہ کامل: چودھویں کا چاند ۔ سر کو ٹپکنا: سر مارنا ۔
مطلب: موج دریا یوں گویا ہوتی ہے کہ کبھی تو چودھویں رات کے چاند کی کشش سے مدوجزر سے ہمکنار ہوتی ہوں اور کبھی جوش و خروش کے عالم میں ساحل کے کناروں سے ٹکراتی ہوں ۔
ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے کیوں تڑپتی ہوں ، یہ پوچھے کوئی میرے دل سے
مطلب: میں تو دراصل اس مسافر کے مانند ہوں جس کو منزل ہی راس آتی ہے اور اسی سے اس کا تعلق خاطر ہوتا ہے ۔ لیکن مجھ میں یہ بے چینی اور اضطراب کیوں ہے اس کو کوئی میرے دل سے ہی پوچھے تو اس کا جواب ممکن ہو سکتا ہے ۔
زحمتِ تنگیِ دریا سے گُریزاں ہوں میں وسعتِ بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں
معانی: زحمت: تکلیف ۔ تنگی دریا: دریا کا محدود ہونا ۔ گریزاں : بھاگنے والی ۔ وسعت بحر: سمندر کا بہت پھیلے ہوئے ہونا ۔
مطلب: امر واقعہ یہ ہے کہ میں جو فطری سطح پر وسیع المشرب ہوں دریا کی تنگی دامانی سے نجات حاصل کرنے کی خواہاں رہتی ہوں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سمندر کی وسعت اور فراخی کو پانے کے لیے میرا دل ہمیشہ مضطرب رہتا ہے ۔