Please wait..

ترانہَ ہندی

 
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا

مطلب: یہ ترانہ اقبال نے اس وقت لکھا تھا جب وہ ایک وطن پرست انسان کے مانند متحدہ ہندوستان کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے تھے ۔ ایک محب وطن شاعر کی حیثیت سے ان کا ذہن ان اشعار میں ہر نوع کے اختلافات اور تعصبات سے پاک نظر آتا ہے ۔ ان کے ذہن میں بنیادی مسئلہ اس وقت صرف اور صرف انگریز کی غلامی کا تھا ۔ چنانچہ ان اشعار میں کہیں کہیں اس طرف اشارے ملتے ہیں ۔ فرماتے ہیں ہندوستان ہمارا ایسا وطن ہے جو ساری دنیا سے اعلیٰ اور خوبصورت نظر آتا ہے ۔ اس کو گلستاں تصور کر لیاجائے تو ہماری حیثیت اس میں مقیم ان بلبلوں کی سی ہے جو خوشیوں کے نغمے گاتی رہتی ہیں ۔

 
غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں  بھی، دل ہو جہاں ہمارا

مطلب: اقبال اس شعر میں کہتے ہیں کہ اگر ہم سفر میں یا کسی دوسرے ملک میں ہوں تو بھی دل میں وطن کی محبت موجزن رہتی ہے ۔ چنانچہ پردیس میں رہتے ہوئے بھی خون کو اپنے وطن میں ہی محسوس کرتے ہیں ۔

 
پربت وہ سب سے اونچا، ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا

مطلب: یقیناً یہ قابل فخر حقیقت ہے کہ ہمالہ جیسا بلند پہاڑ جس کی چوٹیاں آسمانوں کو چھوتی رہتی ہیں وہ ہمارے محافظ اور پاسباں کی طرح سے ایستادہ ہے ۔

 
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشکِ جناں ہمارا

معانی: گودی: گود، مراد وادی ۔ کھیلتی ہیں : یعنی بہہ رہی ہیں ۔ گلشن: پھولوں کا باغ ۔ دم: باعث ۔ رشکِ جناں : جنتوں کے لیے رشک کا باعث ۔
مطلب: ہزاروں ندی نالے وطن عزیز کے طول و عرض میں موجزن رہتے ہیں ۔ جن کے سبب یہاں کی سرزمین ایسی سرسبز و شاداب رہتی ہے جو جنت کے لیے بھی باعث رشک ہے ۔

 
اے آبِ رودِ گنگا وہ دن ہیں یاد تجھ کو
اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا

معانی: آب: پانی ۔ رودِ گنگا: دریائے گنگا، ہندووَں کا مقدس دریا ۔ کارواں اترنا: قافلہ کا کسی جگہ پڑاوَ کرنا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال دریائے گنگا کو مخاطب کر کے استفسار کرتے ہیں کہ کیا تجھے وہ دن یاد ہے جب ہمارا قافلہ تیرے کنارے پر وارد ہوا تھا ۔ واضح رہے کہ علامہ کے آباء و اجداد برہمن تھے اور ہزاروں سال قبل جنوبی ایشیا سے نقل وطن کر کے ہندوستان آئے تھے ۔ ان کا اشارہ اسی واقعہ کی جانب ہے ۔

 
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا

معانی: بَیر: دشمنی ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال اپنے عہد کے مذہبی تعصبات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی مذہب بھی آپس کی دشمنی نہیں سکھاتا بلکہ باہمی سلوک و اتحاد کی تلقین کرتا ہے ۔ ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارا وطن ہندوستان ہے اور ہم سب ہندی ہیں یعنی اس کے باشندے ہیں ۔

 
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا

معانی: یونان و مصر و روما: مراد ان ملکوں کی قدیم و عظیم تہذیبیں ۔ نام و نشاں : مراد تہذیب و وجود ۔
مطلب: یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام بڑی اور قدیم تہذیبیں جو یونان، مصر اور روم کا طرہَ امتیاز تھیں وہ امتدا زمانہ سے بالاخر بٹ کر رہ گئیں جب کہ آج بھی ہر طرح کے تغیر و انقلاب کے باوجود ہم ہندیوں کا نام و نشان باقی ہے ۔

 
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا

مطلب: آخر ہم میں کوئی ایسی خصوصیت تو موجود ہے جس کے سبب ہمیں زوال نصیب نہیں ہوا جب کہ گردش دوراں صدیوں سے ہماری دشمن چلی آ رہی ہے ۔

 
اقبال کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا

معانی: محرم: واقفِ حال ۔ دردِ نہاں : چھپا ہوا دکھ ۔
مطلب: اس نظم کے اس آخری شعر میں اقبال اپنی داخلی کیفیت کو اشارتاً بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں ہمارا کوئی محرم راز نہیں ۔ نا ہی اس درد سے آگاہ ہے جو ہمارے دل میں چھپا ہوا ہے ۔