زمانہ
جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ قریب تر ہے نمود جس کی، اُسی کا مشتاق ہے زمانہ
معانی: حرف محرمانہ: دوستی کی بات، رازداری کی بات ۔ نمود: ظہور ۔
مطلب: اس نظم کا مرکزی کردار زمانہ ہے علامہ اقبال نے عہد کے حوالے سے جو کچھ کہنا چاہا ہے وہ اسی کی زبان سے کہلوایا ہے ۔ دس اشعار پر مشتمل اس نظم کے اولین شعر میں بقول اقبال زمانہ یوں گویا ہوتا ہے کہ کائنات میں بے شمار اشیاء جو کبھی موجود تھیں نظام قدرت کے تحت اب ناپید ہو چکی ہیں ۔ اور وہ اشیاء بھی ناپید ہو جائیں گی جو آج موجود ہیں ۔ غرض فنا ہر شے کا مقدر ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ یہی معرفت کا نکتہ ہے ۔ پھر یوں بھی ہے کہ جو عہد آئندہ میں ظہور پذیر ہو گا تو میں اسی کا منتظر رہتا ہوں ۔
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں میں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
معانی: صراحی: شراب کا برتن ۔ حوادث: حادثے ۔
مطلب: میں (زمانہ) تو ایک ایسے خزینے کے مانند ہوں جس میں ہزاروں بھید اور واقعات محفوظ ہیں اور جب حسب حالات یہ واقعات ایک ایک کر کے برآمد ہو کر منظر عام پر آتے ہیں تو ان کو شمار کر کے اپنے ذہن میں محفوظ رکھتا ہوں ۔
ہر ایک سے آشنا ہوں ، لیکن جدا جدا رسم و راہ میری کسی کا راکب، کسی کا مرکب، کسی کو عبرت کا تازیانہ
معانی: رسم و راہ: طریقہ ۔ راکب: سوار ۔ مرکب: سواری ۔ عبرت کا تازیانہ: سبق دینے کا کوڑا ۔
مطلب: میرا عام طرز عمل یہ ہے کہ دنیا میں موجود ہر فرد سے واقف ہونے کے باوجود ان کے ساتھ میری رسم و راہ کے انداز بالکل الگ الگ ہیں ۔ کسی کو اپنا طابع بنا لیتا ہوں اور جو باصلاحیت اور صاحب اختیار ہیں ان کا مطیع بن جاتا ہوں اور کسی کے لیے عبرت کا تازیانہ بن جاتا ہوں ۔ مراد یہ ہے کہ میں ہر فرد کے ساتھ اس کی صلاحیت کے مطابق زندہ برآمد ہوتا ہوں ۔
نہ تھا اگر تو شریکِ محفل، قصور میرا ہے یا کہ تیرا مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ
معانی: مئے شبانہ: رات کی شراب، پرانے انعامات ۔
مطلب: میں تو ہر لمحے داد و دہش کے مراحل سے گزرتا رہتا ہوں ۔ اگر کوئی شخص میری فیاضی سے استفادہ نہیں کرتا تو اس کے لیے قصور وار وہ ہے میں نہیں ۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور جو لوگ موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے وہ نا اہل بھی ہیں اور اپنی مراد کے حصول سے بھی محروم رہتے ہیں ۔
مرے خم و پیچ کو نجومی کی آنکھ پہچانتی نہیں ہے ہدف سے بیگانہ تیر اس کا، نظر نہیں جس کی عارفانہ
معانی: نجومی: آئندہ کی باتیں بتانے کا دعویدار ۔ ہدف: نشانہ ۔ بیگانہ: ناواقف ۔ عارفانہ: بزرگوں کی سی ہستی جو حقیقت کو جانے ۔
مطلب:علم و نجوم کا ماہر میری حقیقت سے کس طرح آشنا ہو سکتا ہے جب کہ اس کا کام تو ہر لمحے ستاروں کی گردش کی مدد سے لوگوں کو قسمت کا حال بتانے کے چکر میں مبتلا رکھنا ہوتا ہے ۔ کہ یہ طرز عمل میری شناخت کا معیار نہیں ہو سکتا ۔ جان لو کہ جس شخص کو معرفت کا مقام حاصل نہ ہو وہ منزل مراد تک نہیں پہنچ سکتا ۔
شفق نہیں مغربی اُفق پر، یہ جوئے خوں ہے! یہ جوئے خوں ہے طلوعِ فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ
معانی: شفق: سُرخی ۔ فردا: آنے والا کل ۔ دوش: گزرا ہوا کل ۔ امروز: آج ۔
مطلب: اور یہ مغرب یعنی یورپ و امریکہ کے افق پر جو شفق کی سرخی نمایاں ہے تو فی الواقعہ یہ شفق کی سرخی نہیں بلکہ ان لوگوں کے خون کی سرخی ہے مغرب نے جن کا استحصال کیا ۔ لہذا اے مرد خدا یہ امر ناگزیر ہے کہ حالات کا جائزہ آنے والے عہد کے پیش منظر سے لیا جائے ۔
وہ فکرِ گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو اُسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ
معانی: فکرِ گستاخ ۔ یورپی سائنس دان، یورپی علم ۔ عریاں : ظاہر ۔ فطرت: قدرت ۔
مطلب: یورپ کے سائنسدان اور خطرناک ہتھیاروں کے موجد یکجا ہو کر انسانی فطرت کے خلاف نبردآزما ہیں ۔ بے شک یہ لوگ اپنی تباہ کن ایجادات پر فخر کریں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ آج یہ ایجاد ان کے اپنے لیے ہی تباہی کا سبب بن رہی ہیں ۔ ہر چند کہ انھوں نے عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اس کے باوجود ان ایجادات کے باعث یورپ کو جنگ اور اس کے خوف کے علاوہ کچھ اور نہیں مل سکا ۔ حد تو یہ ہے کہ ان خطرناک ایجادات پر جو بے دریغ اخراجات ہوئے ہیں انھوں نے یورپ کے کم و بیش تمام ممالک کو اقتصادی طور پر شدید قسم کے بحرانوں سے دوچار کر دیا ہے ۔
ہوائیں ان کی ، فضائیں ان کی ، سمندر ان کے، جہاز ان کے گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
معانی: بھنور: پانی کا پیچ ۔
مطلب: اس شعر میں بھی اقبال نے پچھلے شعر کے حوالے سے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ بے شک یورپی طاقتیں آج اپنے جہازوں ، سیاروں اور دوسرے ذراءع سے خشکی، سمندر اور تمام فضاؤں پر چھائے ہوئے ہیں ۔ اس کے باوجود قدرت نے انہیں ایسے گرداب کا شکار بنا دیا ہے جو ان کے لیے ہولناک تباہی کا سبب بن سکتا ہے ۔ یہ ہولناک ایجادیں بھی ان کی بربادی کا سامان بن رہی ہیں ۔
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالمِ پیر مر رہا ہے جسے فرنگی مقامروں نے ، بنا دیا ہے قمار خانہ
معانی: جہانِ نو: نئی دنیا ۔ عالمِ پیر: پرانا دور ۔ فرنگی: مغربی، امریکی ۔ مقامر: جوئے باز ۔ قمار خانہ: جوا کھیلنے کا مقام ۔
مطلب: ہر چند کہ یہ ہولناک ایجادات کا دور ہے جسے عالمی سطح پر عروج و ترقی کا نام دیا جا رہا ہے لیکن ذرا گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ عروج و ارتقاء منفی حیثیت کے حامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کا انحطاط و تنزل زیادہ دور نہیں ہے جس کے ردعمل کے طور پر یہ امر قدرتی ہے کہ ایک نیا نظام وجود میں آئے گا اور ہر طرح کی برائیوں اور تباہ کاریوں کے خلاف نبردآزما ہو سکے گا ۔ مراد یہ ہے کہ اہل یورپ نے جس طرح عالمی امن تباہ کرنے کے منصوبے بنا رکھے ہیں یہ منصوبے انہیں خود ہی لے ڈوبیں گے اور اس کے بعد ایک نیا نظام وجود میں آنا قدرتی امر ہے ایسا نظام جو عالمی سطح پر امن و سکون اور خوشحالی سے بہرہ ور کر سکے ۔
ہَوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ
معانی: ہر چند کہ حالات ناسازگار ہیں مخالفت کے تند و تیز آندھی پورے زور و شور کے ساتھ ماحول کو زیر و زبر کر رہی ہے تاہم میں نے اس کی پروا کیے بغیر اپنی فکر اور حکمت و دانش کا چراغ جلا رکھا ہے اس لیے کہ رب ذوالجلال نے مجھے وہ صلاحیت اور قوت بخشی ہوئی ہے کہ ہر طرح کی برائیوں اور نامساعد حالات کا مقابلہ کر سکوں ۔