Please wait..

ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام

 
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زنّاریِ برگساں نہ ہوتا

معانی: فلسفہ زدہ: فلسفہ کا مارا ہوا، فلسفہ کا اثر لیے ہوئے ۔ سید زادہ: سید کا بیٹا، علامہ سے ایک سید زادے نے فلسفیانہ گفتگو کے دوران یورپ کے بعض فلاسفہ کے افکار پر پسندیدہ باتیں کی تھیں ۔ اقبال نے اس گفتگو کے اثر کے تحت اس کے لیے خصوصاً اور دوسرے فرنگی فلسفیوں کے اثرات قبول کرنے والوں کے لیے عموماً یہ نظم لکھی ہے ۔ زناری: قیدی ۔ برگساں : فرانس کے مشہور فلسفی کا نام جو اگرچہ عقل کے مقابلے میں وجدان کا قائل تھا لیکن خدا اور رسول ﷺ کا قائل نہ تھا ۔
مطلب: اے سید زادے تو جو برگساں کے افکار کا قائل ہے اس کا سبب صرف اور صرف یہ ہے کہ تو خودی سے بیگانہ ہے ۔

 
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی

معانی: ہیگل: جرمنی کے ایک مفکر کا نام ۔ صدف: سیپ ۔ گہر: موتی ۔ طلسم: جادو ۔
مطلب: تو ہیگل سے بھی متاثر ہے ۔ وہ تو افلاطونی باتیں زیادہ کرتا ہے اور شیروں کو گوسفندی سکھاتا ہے ۔ اس کا سیپ بھی موتی سے خالی ہے ۔ اس کا تجھ پر یونہی جادو چل چکا ہے ۔ تجھ پر اس کے خیالی جادو کا اثر ہو گیا ہے اس سے نکل آ ۔

 
محکم کیسے ہو زندگانی
کس طرح خودی ہو لازمانی

معانی: محکم: مضبوط ۔ لازمانی: زمانے سے آزاد ۔
مطلب: اصل بات یہ سمجھنے کی ہے کہ آدمی کی زندگی مضبوط کیسے بنے اور اس کی خودی زمانے کی حدود و قیود سے آزاد کیسے ہو ۔ ان باتوں کا جواب نہ برگساں کے پاس ہے اور نہ ہیگل کے پاس ۔ تو کیوں ان کے جادو میں اسیر ہے ۔ ان کے اثرات زائل کر کے خود کو پہچان ۔

 
آدم کو ثبات کی طلب ہے
دستورِ حیات کی طلب ہے

معانی: ثبات: ہمیشہ رہنا ۔ طلب: ضرورت ۔ دستور: قانون ۔
مطلب: آدمی تو چاہتا ہے کہ اسے استحکام نصیب ہو ۔ اسے زندگی کا ایک ایسا طریقہ یا دستور العمل ہاتھ آئے جس سے اس کی زندگی صحیح طور پر بسر ہو ۔ تیری اس طلب کو یہ فلسفی پورا نہیں کر سکتے ۔ اسے اسلام اور قرآن پورا کر سکتے ہیں ۔

 
دنیا کی عشا ہو جس سے اشراق
مومن کی اذاں ندائے آفاق

معانی: عشا: رات کی نماز ۔ اشراق: تھوڑا سورج نکلنے کی نماز ۔ آفاق: آسمان کی حدیں ۔
مطلب: جس عمل سے دنیا کی تاریکی جھٹ کر روشنی پیدا ہو سکتی ہے وہ ان فلسفیوں کے افکار میں نہیں بلکہ مومن کہ ہمہ گیر اور عالمگیر اذان کی آواز میں ہے جس میں اللہ کی توحید اور نبی کریمﷺ کی رسالت کا ذکر ہے ۔

 
میں اصل کا خاص سومناتی
آبا مرے لاتی و مناتی

معانی: سومناتی: ہندوبت پرست ۔ لاتی و مناتی: لات و منات بتوں کے پرستار ۔
مطلب: اقبال کے باپ دادا چونکہ کشمیری برہمن تھے اس شعر میں علامہ نے فرمایا ہے کہ میں اصل کا برہمنوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں ۔ میرے باپ دادا کا سومنات کے ہندو اور لات اور منات جیسے بت پوجنے والوں سے واسطہ رہا ہے اس کے باوجود میں مسلمانی طور طریقے، اسلام کے دستور اور نبی ﷺ کے افکار کو بلند کرتا ہوں ۔ لیکن تو مسلمانوں کے گھر پیدا ہو کر غیر مسلموں کے خیالات رکھتا ہے ۔

 
تو سیدِ ہاشمی کی اولاد
میری کفِ خاک برہمن زاد

معانی: سیدِ ہاشمی: نبی کریم ﷺ کی اولاد میں سے ۔ برہمن زاد: ہندوستان کے باشندے، ہندو ۔
مطلب: اے سید زادے تو تو نبی کریم ﷺ کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور میرا بدن برہمنوں کے گھر پیدا ہوا ہے ۔ میں تو اس برگساں اور ہیگل سے متاثر نہیں لیکن تو ہاشمی ہوتے ہوئے ان سے متاثر ہے ۔ فلسفہ سے میں بھی واقف ہوں لیکن مجھے فلسفہ کی حقیقت کا اور اس کی اچھائی برائی کا پتہ ہے ۔ برہمن زادہ ہو کر میں تو یہ سب کچھ جانتا ہوں لیکن ہاشم زادہ ہو کر حیرت ہے تو ا س سے ناواقف ہے ۔

 
ہے فلسفہ میرے آب و گل میں
پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں

معانی: آب و گل: پانی اور مٹی، مراد خمیر ۔
مطلب: میں فلسفہ سے ناواقف نہیں ہوں ۔ یہ میرے جسم میں سمایا ہوا ہے ۔ میرے دل کی رگوں میں بسا ہوا ہے لیکن میں تو اس کی اچھائی اور برائی سے واقف ہوں لیکن تو واقف نہیں ہے ۔ افسوس ہے تجھ پر جو فلسفہ کی برائی کو اپنائے ہوئے ہے ۔

اقبال اگرچہ بے ہُنر ہے
اس کی رگ رگ سے باخبر ہے

مطلب: اقبال یہاں کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں ا گرچہ کوئی ہنر نہیں جانتا لیکن فلسفہ کی رگ رگ سے ضرور واقف ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ یہ آدمی کو اصلیت اور حقائق سے دور لے جاتا ہے اور اس کی خودی کی نفی کرتا ہے ۔

 
شعلہ ہے ترے جنوں کا بے سوز
سن مجھ سے یہ نکتہ دل افروز

معانی: جنوں : مستی، دیوانگی ۔ بے سوز: ٹھنڈا ۔ دل افروز: دل کو بڑھانے والا ۔ نکتہ: باریک بات ۔
مطلب: اے فلسفہ زادہ! تیرے جنون عشق کا شعلہ تپش نہیں رکھتا کیونکہ تیرا جنون ، عشق پر نہیں عقل پر اعتقاد کیے ہوئے ہے ۔ آ میں تجھے دل کو عشق سے روشن کرنے والی باریک بات بتاؤں ۔

 
انجام خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دوری

معانی: خرد: عقل ۔ بے حضوری: جو حاضر نہ ہو ۔
مطلب: عقل اور فلسفہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ تجھ کو زندگی کی حقیقتوں سے دور کر دیتا ہے ۔ اس کا انجام حضوری یعنی انجام تک رسائی نہیں بلکہ اس سے دوری ہے ۔

 
افکار کے نغمہ ہائے بے صوت
ہیں ذوقِ عمل کے واسطے موت

معانی: نغمہ ہائے: نغمہ کی جمع، گیت ۔ بے صوت: بے آواز ۔
مطلب: فلسفہ کے افکار کو یوں سمجھیں جیسے کہ وہ ایسے نغمے ہوں جن میں کوئی آواز نہیں ۔ یہ زندگی کو عمل نہیں بے عملی سکھاتے ہیں ۔ انسان میں جو عمل کچھ کرنے کا اور حقیقت تک پہنچنے کا ذوق ہوتا ہے اس کو یہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتے ہیں ۔

 
دیں مسلکِ زندگی کی تقدیم
دیں سِرِ محمد و براہیم

معانی: اے فلسفہ زدہ سید زندگی کی جنتری زندگی گزارنے کا نظام الاوقات فلسفہ نہیں ہے دین اسلام ہے ۔ یہ آخری نبی حضرت محمد ﷺ اور حضرت ابراہیم کا بھید ہے ۔ فلسفہ کو چھوڑ اور اس بھید کو سمجھ تا کہ زندگی کی حقیقت ہاتھ آئے ۔

 
دل در سخنِ محمدی بند
اے پورِ علی ز بو علی چند

مطلب: اپنا دل محمد کے کلام سے لگا ۔ تو تو علی کا بیٹا ہے کب تک بو علی سینا کے فلسفے سے متاثر رہے گا ۔ یعنی اے سید فلسفہ زدہ تو تو حضرت علی کی اولاد میں سے ہے ۔ تو حضرت علی کا پیرو کار بن بو علی جیسے فلسفی کے پیچھے کیوں چلتا ہے ۔ کب تک تو اس عمل کو اپنائے رکھے گا اپنا دل اسلام کے پیغمبر، حضرت محمد مصطفیﷺ کی باتوں میں لگا ۔ جو کچھ انھوں نے حدیث میں کہا ہے یا جو کچھ ان پر نازل شدہ آسمانی کتاب قرآن میں آیا ہے اس پر عمل کر ۔

 
چوں دیدہَ راہ بیں نداری
قاید قرشی بہ از بخاری

مطلب: اے شخص جب تو راستہ دیکھنے والی آنکھ نہیں رکھتا تو تیرے لیے یہ بہتر ہے کہ تو قرشی (حضرت محمد مصطفی ﷺ) کو اپنا قائدبنا لے اور بخاری (بو علی فلسفی) کو چھوڑ دے ۔ ہاں اگر تجھے میری طرح زندگی کے راستے کا پوری طرح علم ہو جائے اور فلسفہ کی اونچ نیچ کا پتہ چل جائے تو پھر بو علی سینا کو پڑھنا نقصان دہ نہ ہو گا کیونکہ تجھے علم ہو جائے گا کہ عقل نے کہاں ڈنڈی ماری ہے ۔