رات اور شاعر
رات
کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تو پریشاں خاموش صورتِ گل مانندِ بو پریشاں
معانی: پریشاں : بے چین ۔ صورتِ گُل: پھول کی طرح ۔ مانند بُو: خوشبو کی طرح ۔ پریشاں : بکھرا ہوا ۔
مطلب: اس شعر میں رات یوں شاعر سے مکالمہ کرتی ہے کہ اے شاعر! کیا وجہ ہے کہ تو میری چاندنی میں کیوں مضطرب اور پریشان پھر رہا ہے ۔ تیری کیفیت تو ایک پھول کے مانند ہے جو خود تو ساکت رہتا ہے لیکن اس کی خوشبو آوارہ و پریشان رہتی ہے ۔
تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تو مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تو
معانی: جوہری: قیمتی موتیوں کی پہچان، پرکھ رکھنے والا ۔ دریائے نور: روشنی کا دریا، آسمان ۔
مطلب: یوں لگتا ہے تو آسمان پر جو ستارے موتی کی طرح چمک رہے ہیں ان کا جوہری یا پرکھنے والا ہے بالفاظ دگر میری روشنی کو نور کا دریا تصور کر لیا جائے تو تیری حیثیت ایک مچھلی کے مانند ہے ۔
یا تو مری جبیں کا تارا گرا ہوا ہے رفعت کو چھوڑ کر جو پستی میں جا بسا ہے
معانی: جبین: ماتھا، پیشانی ۔ رفعت: بلندی ۔ پستی: نیچائی ۔
مطلب: یا پھر یوں بھی ہو سکتا ہے کہ میری پیشانی کے جھومر سے جو ایک ستارا گر گیا تھا وہ ستارہ تو ہی ہے جو بلندی کو چھوڑ کر اب پستی میں مقیم ہے ۔
خاموش ہو گیا ہے تارِ ربابِ ہستی ہے میرے آئینے میں تصویرِ خوابِ ہستی
معانی: تارِ رباب ہستی: زندگی کے باجے کا تار ۔
مطلب: اے شاعر! میرے وجود سے زندگی کا ایک ساز ساکت ہو کر رہ گیا ہے اور میں وہ آئینہ ہوں جس میں خوابیدہ دنیا کے تمام مناظر واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں ۔
دریا کی تہ میں چشمِ گرداب سو گئی ہے ساحل سے لگ کے موجِ بیتاب سو گئی ہے
معانی: گرداب: بھنور ۔ موجِ بیتاب: مراد اچھلتی ہوئی لہریں ۔
مطلب: ان مظاہر کا تو کیا ذکر بھنور تک دریا کی تہہ میں محو خواب ہو کر رہ گیا ہے ۔ اور جو بیتاب مضطرب موج تھی وہ بھی شاید ساحل سے ہم آغوش ہو کر سو گئی ہے ۔
بستی ز میں کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے یوں سو گئی ہے جیسے آباد ہی نہیں ہے
معانی: بستی ز میں کی: مراد زمین کی دنیا ۔ کیسی: کتنی زیادہ ۔ ہنگامہ آفریں : شور و غل، رونق پیدا کرنے والی ۔ آباد ہی نہیں : اس میں کوئی نہیں رہ رہا ۔
مطلب: ہر چند کہ زمین پر جو بستیاں آباد ہیں وہ ہمیشہ ہنگاموں سے پر رہتی ہیں لیکن اس لمحے یوں لگتا ہے جیسے ہر جان سناٹا ہے اور وہاں کوئی جاندار شے موجود نہیں ہے ۔
شاعر کا دل ہے لیکن نا آشنا سکوں سے آزاد رہ گیا تو کیونکر مرے فسوں سے
معانی: نا آشنا: ناواقف، بے خبر ۔ فسوں : جادو ۔
مطلب: اس ساری صورت حال میں اے شاعر! میں دیکھ رہی ہوں کہ تو سکون آشنا نہیں بلکہ پریشاں حال ہے ۔ مجھے اس امر پر شدید حیرت ہے کہ تو میرے سحر سے کس طرح آزاد رہ گیا ۔
شاعر
میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں چھپ کے انسانوں سے مانندِ سحر روتا ہوں
معانی: گہر بونا: مراد آنسو ٹپکانا ۔ مانندِ سحر: صبح کی طرح، مراد اوس کی طرح ۔
مطلب: نظم کے اس حصے میں شاعر یوں گویا ہوتا ہے کہ اے رات! تیرے استفسارات کے جواب میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ تیری چاندنی میں میرے آنسو ایسے موتی کے مانند ہیں جو یہاں بو رہا ہوں اور صبح کی طرح انسانوں سے چھپ کر تنہائی میں سرگرم فغاں رہتا ہوں ۔
دن کی شورش میں نکلتے ہوئے شرماتے ہیں عُزلتِ شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں
معانی: عزلتِ شب: رات کی تنہائی ۔ ٹپک جانا قطرہ قطرہ کر کے گر جانا ۔
مطلب: میرے آنسو جو دن کے ہنگاموں میں آنکھوں سے نکلتے ہوئے شرماتے ہیں وہ تیری تاریکی اور تنہائی میں آنکھوں سے ٹپک جاتے ہیں ۔
مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے سناؤں کس کو تپشِ شوق کا نظّارہ دکھاؤں کس کو
معانی: تپشِ شوق: عشق کی گرمی ۔
مطلب: میرے دل میں جو آہیں اور فریاد پوشیدہ ہے وہ آخر کس کو سناؤں ۔ مزید برآں سینے میں جو عشق کی حرارت موجود ہے اس کا اظہار کس کس کے سامنے کروں جب کہ میری حالت پر یہاں توجہ دینے والا کوئی بھی نہیں ہے ۔
برقِ ایمن مرے سینہ پہ پڑی روتی ہے دیکھنے والی ہے جو آنکھ، کہاں سوتی ہے
معانی: برقِ ایمن: اشارہ ہے وادی ایمن (کوہ طور) کی طرف جہاں جلوہ خدا بجلی کی طرح چمکا تھا ۔
مطلب: صورت یہ ہے کہ میرے سینے میں تو وہ بجلی بھی بے عمل ہو کر رہ گئی ہے اور اشک فشانی کر رہی ہے کوہ طور پر جلوہ دکھانے والی بجلی جس کے مماثل ہے نہ جانے وہ آنکھیں اب کہاں ہیں جو کسی بھی منظر کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھنے کی اہلیت رکھتی تھی ۔
صفتِ شمعِ لحد مردہ ہے محفل میری آہ! اے رات بڑی دور ہے منزل میری
معانی: صفت: مانند، طرح ۔ شمعِ لحد: قبر پر جلنے والی موم بتی ۔ محفل میری: میری قوم ۔
مطلب: میری محفل تو اب اس شمع کے مانند ہے جو اجاڑ ویرانے میں کسی مزار پر روشن ہے اے رات تجھے اس حقیقت کا یقینا علم نہیں ہے کہ میری منزل ابھی بہت دور ہے ۔ اور جو مسافت ہے وہ کڑی ہے ۔ اس کو طے کرنا بے حد و حساب مشکل کام ہے ۔
عہدِ حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کو
معانی: احساس: خیال ۔
مطلب: تو کیا جانے کہ میری قوم کے لیے عہد حاضر کا ماحول قطعی سازگار نہیں ہے ۔ پھر اس کا کیا کیا جائے کہ اسے تو خود بھی اپنی اس زبوں حالی کا احساس نہیں ہے ۔
ضبطِ پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں تیرے تابندہ ستاروں کو سُنا جاتا ہوں
معانی: ضبطِ پیغام محبت: محبت کا پیغام روک رکھنا ۔ تابندہ: روشن ۔
مطلب: اے رات! حقیقت یہ ہے کہ جب یہ صورت حال اور اس کا تصور میرے ضبط سے باہر ہو جاتا ہے تو مضطرب ہو کر اپنی داستان غم تیرے اجلے ستاروں کو سنانے آ جاتا ہوں ۔