Please wait..

طلبہَ علی گڑھ کالج کے نام

 
اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے
عشق کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے

معانی: طلبہ: جمع طالب، مراد طالب علم ۔ علی گڑھ کالج: برصغر کا مشہور کالج جو اب علی گڑھ یونیورسٹی ہے ۔ اوروں : جمع اور، دوسروں ۔ عشق کا درد مند: مراد عشق کے جذبے سے سرشار ۔ طرزِ کلام: بات کرنے کا طریقہ ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں دوسرے شاعر، ادیب اور سیاسی رہنما تمہیں جو نصیحتیں کرتے رہے ہیں امر واقعہ یہ ہے کہ میرا پیغام ان سے قطعی مختلف ہے ۔ اس لیے کہ میرے دل میں عشق حقیقی کا پیدا کردہ درد موجزن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میرا انداز بیان بھی دوسروں سے مختلف ہے ۔

 
طائر زیرِ دام کے نالے تو سن چکے ہو تم
یہ بھی سنو کہ نالہَ طائر بام اور ہے

معانی: طائر زیر دام: جال میں پھنسا ہوا پرندہ، عشق کے جذبوں سے خالی ۔ طائر بام: چھت پر بیٹھا ہوا پرندہ مراد مومن ۔
مطلب: قبل ازیں تم لوگ دراصل ایسے لوگوں کی باتیں سنتے رہے تھے جو ذہنی طور پر بھی انگریز کے غلام تھے ۔ جب کہ میں تو ذہنی اور سیاسی بنیاد پر خود کو ہر طرح سے آزاد و خود مختار تصور کرتا ہوں چنانچہ تم سے جو کہنا ہے وہ ایک آزاد شاعر کے طور پر کہنا ہے ۔

 
آتی تھی کوہ سے صدا رازِ حیات ہے سکوں
کہتا تھا مورِ ناتواں لطفِ خرام اور ہے

معانی: کوہ: پہاڑ ۔ رازِ حیات: زندگی کی حقیقت ۔ سکوں : ٹھہراوَ ۔ مورِ ناتواں : کمزور چیونٹی ۔ لطف خرام: چلنے یعنی حرکت میں رہنے کا مزہ ۔
مطلب: پہاڑ تو اپنی جگہ پر قائم و منجمد رہتا ہے اور وہ اسی کیفیت میں سکون اور اطمینان محسوس کرتا ہے اس کے برعکس ایک ننھی سی کمزور چیونٹی کا رویہ پہاڑ سے بالکل مختلف ہے ۔ وہ ہر لمحے حرکت میں رہتی ہے اس کے نزدیک حرکت ہی سکون قلب کا سبب بن سکتی ہے ۔

 
جذبِ حرم سے ہے فروغ انجمنِ حجاز کا
اس کا مقام اور ہے، اس کا نظام اور ہے

معانی: جذب حرم: کعبہ کی کشش، مرکز سے وابستگی ۔ فروغ: روشنی، رونق ۔ انجمن حجاز: مراد ملت اسلامیہ ۔ مقام: مرتبہ، شان ۔ نظام: طور طریقے ۔
مطلب: اے عزیز طلباء! میری بات غور سے سنو کہ ملت مسلمہ کا تمام تر وقار و احترام کعبہ کی محبت اورعشق کے سبب ہے ۔ اسی جذبے کے سبب یہ امر واضح ہو سکے گا کہ دوسری قوموں اور مذاہب کے مقابلے میں ملت اسلامیہ کا نظام کس قدر مختلف اور منفرد ہے ۔ اقبال کہنا چاہتے ہیں کہ تمہارا تعلق چونکہ اسلام سے ہے اس لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ اسی کی پیروی کی جائے ۔ اور دوسرے ادیان کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے کے باوجود خود اپنی راہ پر گامزن رہا جائے ۔

 
موت ہے عیشِ جاوداں ، ذوقِ طلب اگر نہ ہو
گردشِ آدمی ہے اور، گردشِ جام اور ہے

معانی: عیشِ جاوداں : ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ۔ ذوق طلب: مراد دنیاوی خواہشات رکھنا ۔ گردشِ آدمی: انسان کا چلنا پھرنا ۔
مطلب: یہ بھی جان لو کہ انسان کو مستقلاً عیش و آرام کی زندگی میسر ہو اور آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی آرزو نہ ہو تو ایسی جامد و ساکت زندگی موت سے بھی بدتر ہے ۔ شراب کے پیالے کی گردش اور انسان کی گردش میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جام شراب کی گردش محض چند ہاتھوں تک محدود ہوتی ہے جب کہ انسان اسی نوع کی جدوجہد سے زندگی میں بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے ۔

 
شمعِ سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز
غمکدہَ نمود میں شرطِ دوام اور ہے

معانی: سوز: مراد عشق کی تپش ۔ زندگی کا ساز: زندگی کی کامیابی کا سامان ۔ غمکدہَ نمود: مراد دنیا جو دکھوں کا گھر ہے ۔ شرطِ دوام: ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے کی پابندی ۔
مطلب: شمع جو شب بھر جلتی رہی صبحدم بجھتے بجھتے زبان حال سے یہ پیغام دے گئی کہ زندگی کا ارتقاء اس حقیقت میں ہے کہ انسان تمام عمر جدوجہد کرے خواہ اس کے لیے کتنے ہی دکھ اٹھانے پڑیں ۔

 
بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خُم کے سر پہ تم خشتِ کلیسا ابھی

معانی: بادہ ہے نیم رس: آدھی پکی شراب ۔ نارسا: نہ پہنچ سکنے والا ۔ خُم: شراب کا پیالہ ۔ خشتِ کلیسا: چرچ کی اینٹ ۔
مطلب: سر سید احمد خاں کے نظریات سے اتفاق کرتے ہوئے اقبال طلبہ سے کہتے ہیں کہ ابھی تمہیں اپنا مقصد حیات حاصل کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی چاہیے اور اس وقت تک انگریز سے متصادم ہونے کی ضرورت نہیں جب تک کہ ہر اعتبار سے تمہاری صفوں میں استحکام پیدا نہ ہو جائے ۔