Please wait..

تصوف

 
یہ حکمتِ مَلکوتی، یہ علمِ لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

معانی: ملکوتی : فرشتوں کی طرح ۔ لاہوتی: خدا کی معرفت ۔ درماں : علاج ۔ حرم: کعبہ، مسجد ۔ درد: مرض، غم ۔
مطلب: اس نظم میں علامہ ان صوفیاء سے خطاب کرتے ہیں جو ذکر و فکر کی دنیا میں زندگی گزار دیتے ہیں لیکن مسلمانوں کے اصل دکھ درد کا علاج نہیں کرتے ۔ چنانچہ اس پہلے شعر میں یہی کہا ہے کہ اے صوفی تیری فرشتوں کے جہان تک رسائی میں جو حکمت ہے اور تیرے پاس جو الوہیت کے عالم کا علم ہے وہ اس وقت تک بے کار ہے جب تک کہ وہ مسلمانوں کے دکھ درد کا علاج نہیں کرتا ۔

 
یہ ذکرِ نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

معانی: ذکرِ نیم شبی: آدھی رات کو اُٹھ کر عبادت کرنا ۔ مراقبے: تنہائی میں عبادت ۔
مطلب: یہ آدھی راتوں کو اٹھ کر اللہ کا ذکر کرنا اور مراقبے میں رہنا بے شک تیرے لیے مستی اور کیفیت کی بات ہے لیکن اگر ان سے تو اپنی خودی کی حفاظت نہیں کر سکتا تو میرے نزدیک یہ سب کچھ بے کار ہے ۔

 
یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار
شریکِ شورشِ پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

معانی: مہ و پرویں : ستارے ۔ شورشِ پنہاں : پوشیدہ ہنگامہ ۔
مطلب: یہ انسانی عقل جو چاند اور پرویں کا شکار کھیل رہی ہے یعنی جو معجزانہ طور پر آسمان تک کی چیزوں کی تسخیر کر رہی ہے اگر وہ انسان کے اندر کے چھپے ہوئے ہنگامے یعنی اس کی عشقیہ کیفیات میں شریک نہیں ہے تو یہ عقل بے کار ہے ۔ عشق کے بغیر عقل فائدہ کے بجائے نقصان دیتی ہے ۔

 
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

معانی: خرد: عقل ۔ لا الہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ دل ونگاہ: دل اور نظر ۔
مطلب: اس سے پہلے شعر میں چونکہ بے عشق عقل کی بات چلی تھی اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان زبان سے کلمہ توحید پڑھ بھی لے اور خدا کو الہ مان بھی لے تو اس سے اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ دل سے بھی اس کا اقرار نہ کیا جائے ۔ اقرار دل سے مسلمان کی نگاہ میں بھی فرق پڑ جاتا ہے اور یہی مقصود مسلمانی ہے ۔ مگر آج کا مسلمان زبان سے تو کلمہ پڑھتا ہے لیکن اس کا دل اور اس کی نگاہ اس کلمے کے مطابق نہیں ہے ۔

 
عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
فروغِ صبحِ پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

معانی: پریشاں : حیران کن بکھری ہوئی ۔ فروغِ صبح: صبح کی روشنی ۔
مطلب: اقبال تصوف پر مذکورہ بالا باتیں کرتے ہوئے یہ محسوس کرتے ہیں کہ شاید بعض قاری میری اس گفتگو کو انتشاری کیفیت سمجھیں لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح صبح کی روشنی پھیلتی ہے اور اس سے تاریکی جھٹ جاتی ہے اسی طرح میری گفتگو بھی صبح کی روشنی کے پھیلاوَ کی مانند ہے ۔ اہل نظر اس میں سے صحیح بات اخذ کر سکتے ہیں ۔