Please wait..

حضورِ رسالت مآب ﷺ میں

 
گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامہَ زمانہ ہوا
جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا

معانی: : حضور: خدمت ۔ رسالت مآب: حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ گراں : بھاری ۔ یہ ہنگامہَ زمانہ: یہ زمانے کی مصیبتیں ، اشارہ ہے 1911 کی جنگ بلقان کی طرف ۔ اس موقع پر ترکوں کی مدد کے لیے شاہی مسجد لاہور کے جلسہ میں علامہ نے یہ نظم پڑھی تھی ۔ رختِ سفر: سفر کا سازوسامان ۔
مطلب: علامہ اقبال نے اس نظم میں طرابلس کے شیہدوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ یہ شہید جو اٹلی سے اس خطہ ارض کو آزاد کرانے کے معرکے میں کام آئے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ جب یہ عہد میرے لئے ناقابل برداشت ہو گیا تو رخت سفر باندھ کر عالم بالا کی طرف روانہ ہو گیا ۔

 
قیودِ شام و سحر میں بسر تو کی لیکن
نظامِ کہنہَ عالم سے آشنا نہ ہوا

معانی: : قیود: جمع قید، قیدیں ، پابندیاں ۔ بسر کرنا: زندگی گزارنا ۔ نظام کہنہَ عالم: دنیا کا پرانا نظم ونسق، دنیا کے تعلقات ۔ آشنا: واقف ۔
مطلب: اس لیے کہ یہ دنیا جو صبح و شام کی قید سے عبارت ہے وہاں زندگی جیسے تیسے بسر تو کی تاہم یہاں کے فرسودہ نظام سے قطعی مانوس نہیں ہو سکا ۔

 
فرشتے بزمِ رسالت میں لے گئے مجھ کو
حضور آیہَ رحمت میں لے گئے مجھ کو

معانی: : بزمِ رسالت: حضور اکرم کی محفلِ مبارک ۔ آیہَ رحمت: رحمت کی نشانی یعنی حضور اکرم جنھیں تمام کائنات کے لئے رحمت کہا گیا ہے ۔ وما ارسلنک الا رحمت للعالمین ۔
مطلب: چنانچہ جب میں عازم سفر ہوا تو فرشتوں نے میری رہنمائی کی اور مجھے حضور سرور کائنات کی بارگاہ میں لے گئے ۔ حضور جو رحمت اللعالمین ہیں ۔

 
کہا حضور نے اے عندلیبِ باغِ حجاز
کلی کلی ہے تری گرمیِ نوا سے گداز

معانی: : عندلیب: بلبل ۔ باغِ حجاز: مراد چمن اسلام ۔ گرمیِ نوا: عشق کی حرارت سے پُر شاعری ۔ گداز: پگھلی ہوئی، بے حد متاثر ۔
مطلب: آنحضرت نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ تو بے شک گلستان حجاز کا بلبل ہے ۔ تیرے نغموں یعنی شاعری سے ملت کا ہر فرد بے شک متاثر ہوا ہے ۔ یہ کارنامہ جو تو نے انجام دیا ہے بے حد عظیم ہے ۔

 
ہمیشہ سرخوشِ جامِ ولا ہے دل تیرا
فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز

معانی: : سرخوش: بہت خوش، بہت مست ۔ جامِ ولا: حضور کی محبت کا جام ۔ فتادگی: عاجزی، انکسار ۔ غیرتِ سجودِ نیاز: جو عاجزی، خاکساری والے سجدے کے لیے باعثِ رشک ہو ۔
مطلب: تیرا دل ہمیشہ ہماری محبت سے سرشار رہتا ہے ۔ تیری خاکساری اور انکساری ہزار ہا سجدوں کے لیے باعث رشک ہے ۔

 
اُڑا جو پستیِ دنیا سے تو سوئے گردوں
سکھائی تجھ کو ملاءک نے رفعتِ پرواز

معانی: : پستی: نیچائی ۔ سوئے گردوں : آسمان کی طرف ۔ ملاءک: جمع ملک، فرشتے ۔ رفعتِ پرواز: شاعرانہ تخیل کی بلندی ۔
مطلب: تو زمین کی پستی سے اڑ کر جو یہاں پہنچا ہے کہ فرشتوں نے تجھے بلند پروازی سکھائی ہے ۔

 
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آیا
ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا

معانی: : برنگِ بو: خوشبو کے رنگ میں ۔
مطلب: بے شک تو باغِ دنیا سے خوشبو کی طرح اڑ کر یہاں آیا ہے مگر ہمارے لیے کیا تحفہ لایا ۔

 
حضور ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے، وہ زندگی نہیں ملتی

معانی: : آسودگی: سکون، آرام ۔
مطلب: آنحضرت کے استفسار پر اقبال نے عرض کی کہ حضور دنیا وہ مقام ہے جہاں آرام و سکون ناپید ہے اور جس زندگی کی تلاش ہو وہ بھی میسر نہیں ہوتی ۔

 
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی

معانی: : ریاض ہستی: وجود کا باغ ۔
مطلب: اگرچہ اس دنیا میں بے شمار انسان بستے ہیں لیکن ان میں حمیت و وفا کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے ۔

 
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے، جنت میں بھی نہیں ملتی

معانی: : نذر: تحفہ ۔ آبگینہ: شیشے کا پیالہ ۔
مطلب: اس کے باوجود میں حضور کی خدمت اقدس میں ایک ایسا آبگینہ لے کر آیا ہوں کہ اس میں جو گرانقدر شے ہے وہ جنت میں بھی نہیں مل سکتی ۔

 
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں

معانی: : جھلکتی: چمکتی ہے، نظر آتی ہے ۔ طرابلس: 1911 میں اٹلی نے ترکی کے اس شہر پر حملہ کر کے بہت سے ترکوں کو شہید کر دیا تھا ۔
مطلب: یہ نایاب شے جو اس آبگینے میں موجود ہے وہ طرابلس کے شہیدوں کا لہو ہے ۔ جس سے حضور کی امت کی آبرو اور توقیر جھلکتی ہے ۔