ترانہَ ملی
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
معانی: ترانہ ملی: قومی گیت ۔ سارا جہاں وطن ہونا: مراد مسلمان جغرافیائی حدوں کا قائل نہیں ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ چین، عرب اور ہندوستان یہ سب ہمارے ملک ہیں ۔ ہم مسلمان ہیں اور سارا جہان ہمارے وطن کے مانند ہے ۔ اس لیے کہ اپنے عقیدے کے اعتبار سے مسلمان کسی مخصوص خطہ زمین کو خود سے وابستہ نہیں سمجھتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال سارے جہان کو اپنا وطن شمار کرتے ہیں ۔
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
معانی: توحید: خدا کی وحدت، صرف ایک معبود ۔ امانت: مراد عقیدہ ۔ سینوں میں : دلوں میں ۔ نام و نشاں : مراد ہستی، وجود ۔
مطلب: ہمارے سینوں میں خدا کی واحدانیت کا تصور ایک امانت کی طرح محفوظ ہے اور اس واحدانیت کو کوئی ختم نہیں کر سکتا اس لیے ہمارا نام و نشاں بھی کوئی نہیں مٹا سکتا ۔
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں ، وہ پاسباں ہمارا
معانی: پہلا وہ گھر خدا کا : کعبہ شریف کی تعمیر حضرت ابراہم نے کی تھی ۔ پاسباں : حفاظت کرنے والا ۔
مطلب: جن دنوں دنیا بھر میں کفر و الحاد پھیلا ہوا تھا اور ہر سمت بت خانے ہی بت خانے تھے اس وقت خدا کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم نے خدائے وحدت کی عبادت کے لیے اولین عمارت تعمیر کی جسے خانہ کعبہ سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ ہم مسلمان خانہ کعبہ کے محافظ ہیں اور یہ ہماری حفاظت کرتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے سبب ملت اسلامیہ میں نظم و ضبط اور وحدت کا تصور برقرار ہے ۔ یہ نہ ہوتا تو ہم ریزہ ریزہ ہو کر رہ جاتے ۔
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
معانی: تیغوں کے سایہ: یعنی بزرگوں نے جو جہاد کیے ۔ پل کر جواں ہوئے ہیں : مراد ہمارے خمیر، فطرت میں اپنے بزرگوں والا جذبہَ جہاد ہے ۔ ہلال: پہلی کے چاند کو خنجر کہا ۔ قومی نشاں : مراد ہندوستان کے مسلمانوں کا اسلامی نشان ۔
مطلب: یہ حقیقت ہے کہ ہم تلواروں کے سائے میں پل کر غفوان شباب تک پہنچے اور اس امر سے کسے انکار ہو گا کہ ملت اسلامیہ کا سبز پرچم ہلال اور ستارے سے سجا ہوا چونکہ ہلال بڑی حد تک خنجر سے مشابہ ہوتا ہے اس لیے اسے اقبال نے اسی سے تشبیہ دی ہے اور اسے قومی نشان سے تعبیر کیا ہے ۔
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
معانی: مغرب کی وادیاں : مراد یورپ کے ملک، شہر یعنی سپین وغیرہ ۔ گونجی اذاں ہماری: ہماری اذانوں کی آواز بلند ہوئی ۔ سیلِ رواں : مراد بڑھتے ہوئے عظیم لشکر ۔
مطلب: ہر چند کہ مسلمان عساکر کا بنیادی مرکز عرب تھا اس کے باوجود ہم اپنی قوت اور ہمت کے طفیل مغربی ممالک پر یلغار کرتے رہے ۔ یہاں ہماری اذانیں گونجتی رہیں ۔ یوں یہ امر واقعہ ہے کہ ان علاقوں میں بھی ہمارے عساکر کی یلغار کے سامنے کوئی لشکر بھی نہ ٹھہر سکا اور ہم جو یورپی ممالک میں فتوحات حاصل کرتے رہے ۔
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
مطلب: اس شعر میں اقبال آسمان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے فلک کج رفتار یہ جان لے کہ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو باطل سے خوف زدہ ہو کر رہ جائیں ۔ اس ضمن میں تو اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ تو ایک بار نہیں سو بار ہمارا امتحان کر چکا ہے ۔
اے گلستانِ اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا
معانی: تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا: مذکورہ حکومت کی طرف اشارہ ہے ۔
مطلب: اس کے ثبوت میں اندلس اور دجلہ کو ہماری جرات و حوصلے کی داستانیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔
اے موجِ دجلہ! تو بھی پہچانتی ہے ہم کو اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
معانی: دجلہ: دریائے دجلہ جس کے کنارے شہر بغداد آباد ہے ۔
مطلب: یہاں کبھی مسلمان سلاطین کا اقتدار پورے عروج پر تھا اور گردوپیش کی وادیاں ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی زد میں ہوتی تھیں ۔
اے ارضِ پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
معانی: ارضِ پاک: مراد سرزمین حجاز جس کی حدود میں مکہ و مدینہ واقع ہیں ۔ کٹ مرنا: جہاد میں شہید ہونا ۔ خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا: مراد حجاز کی عزت و توقیر بڑھانے کے لیے مسلمانوں نے کس قدر قربانیاں دیں ۔
مطلب: اے سرزمین حجاز! کیا تو اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ ہم نے تیری عزت و حرمت کے لیے ہمیشہ اپنی جانیں قربان کی ہیں اور آج بھی تیری رگوں میں ہمارا خون رواں دواں ہے ۔
سالارِ کارواں ہے میرِ حجاز اپنا اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
معانی سالارِ کارواں : قافلے کا سربراہ ملت اسلامیہ کے سالار ۔ آرامِ جاں : روح کا سکون ۔
مطلب: اے سرزمین حجاز! تو جانتی ہے کہ تیرا والی و آقا ہمارے قافلے کا سالار اول ہے یعنی حضور سرورکائنات ﷺ کی تعلیمات کی روشنی سے ہم رہنمائی حاصل کر رہے ہیں ۔ یہی نام عملاً اسم اعظم کی طرح ہے جو ہمارے بے چین اور مضطرب دلوں کو سکون و اطمینان سے ہم کنار کرتا ہے ۔
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
معانی: بانگِ درا: قافلے کی روانگی کے وقت کی گھنٹی کی آواز ۔ جادہ پیما: مراد جدوجہد اور عمل کے لیے سرگرم ۔ کارواں : ملت ۔
مطلب: اس نظم کے مقطع میں اقبال کہتے ہیں کہ میں نے جو یہ ملی ترانہ تخلیق کیا ہے وہ ایک ایسی گھنٹی کی مانند ہے جو دوران سفر ہمیشہ رہنمائی کا سبب بنتی ہے ۔ اس الارم کے ساتھ یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارا قافلہ ایک بار پھر سے بڑی مستعدی اور نظم و نسق کے ساتھ اپنی منزل کی جانب سرگرم سفر ہو رہا ہے ۔