اسرارِ پیدا
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
معانی: اسرار پیدا: ظاہری بھید ۔ حاجت: ضرورت ۔ فولاد: لوہا ۔
مطلب: جس قوم کے جوان اپنی لوہے جیسی مضبوط خودی سے آشنا ہوں اور اس پر مضبوطی سے قائم بھی ہوں یعنی وہ اپنی اور اپنی قوتوں اور صلاحیتوں سے واقف ہوں اس قوم کو پھر تلوار کی ضرورت نہیں رہتی ۔ اس قوم کے لیے ان جوانوں کا جذبہ ایمان اور جذبہ حب الوطنی آلات حرب و ضرب سے زیادہ کام کرتا ہے ۔
ناچیز جہانِ مہ و پرویں ترے آگے وہ عالمِ مجبور ہے، تو عالمِ آزاد
معانی: مہ و پرویں : ستارے اور سیارے ۔
مطلب: اے انسان تو اپنے ارادے، اپنی فکر اور اپنے عمل میں آزاد ہے جب کہ یہ آسمان پر چمکنے والے تارے، چاند، وغیرہ آزادی کے ان اوصاف سے محروم ہیں ۔ وہ مجبور محض ہیں اس لیے تو ان سے افضل ہے ۔ یہ تیری بھول ہے کہ تو ان کو اپنے آپ سے بلند اور چمک دار سمجھتا ہے وہ تو تیرے شکار ہیں ۔ تو جب چاہے انہیں تسخیر کر سکتا ہے تو ان سب پر فائق ہے ۔
موجوں کی تپش کیا ہے، فقط ذوقِ طلب ہے پنہاں جو صدف میں ہے وہ دولت ہے خداداد
معانی: پنہاں جو صدف میں : سیپ میں جو چھپا ہوا موتی ۔ خداداد: خدا کی عطا کی گئی ۔
مطلب: دریا یا سمندر میں موجوں کی تڑپ کو دیکھو وہ کسی شے کی طلب کے لیے تڑپ رہی ہوتی ہیں ۔ اور اس تڑپ اور طلب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قدرت ان میں موجود سیپیوں کے اندر موتی چھپا کر رکھ دیتی ہے اور انہیں مالامال کر دیتی ہے ۔ اصل چیز طلب کی تڑپ ہے ۔ یہ تڑپ ہو گی تو مقاصد بلند بھی حاصل ہوں گے ۔
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا پُردَم ہے اگر تُو ، تو نہیں خطرہَ افتاد
معانی: پُردم: بھرپور سانس والا، یعنی حوصلہ مند ۔ خطرہَ افتاد: گرنے کا خطرہ ۔
مطلب: باقی جانور تھوڑا بہت اڑنے کے بعد تھک جاتے ہیں اور کہیں کہیں دم لینے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں لیکن باز کو دیکھو وہ گھنٹوں اڑتا رہتا ہے ۔ اس کا دم ایسا پکا ہے کہ وہ تھکتا نہیں ۔ اگر تو بھی باز کی طرح پختہ دم ہو تو تجھے بھی اپنی زندگی کی پرواز میں گرنے کا خطرہ نہیں ہے ۔ یہ ہے وہ کھلا ہوا بھید جو اقبال نے اس نظم میں بیان کرنا چاہا ہے ۔