Please wait..

(16)

 
میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیرِ نیم کش، جس کا نہ ہو کوئی ہدف

معانی: میرِ سپاہ ناسزا: سپہ سالار نالائق ہے ۔ لشکریاں شکستہ صف: فوجوں میں نظم و ضبط نہیں ۔ تیرِ نیم کش: آدھا کھچا ہوا تیر جس کا کوئی ہدف نہ ہو ۔
مطلب: اس نظم کے اشعار میں قریب قریب ہر مقام پر اقبال کی حیثیت ایک دل گرفتہ اور مایوس شاعر کے مانند ہے ۔ چنانچہ ابتدائی شعر میں ہی وہ ایک صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے بڑے دردانگیز لہجے میں یوں گویا ہیں کہ میری قوم اپنے بے حسی اور بے عملی کے سبب انتہائی انتشار کا شکار ہے ۔ یہ بھی ہے کہ قوم کا جو رہنما ہے وہی بے عمل اور قیادت کی صلاحیت سے عاری ہے چنانچہ نہ تو قوم کے سامنے کوئی جذبہ تعمیر ہے نا ہی اس کے رہنما کے ذہن میں کوئی تعمیری منصوبہ جو مثبت کیفیت کا حامل ہو ۔

 
تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف

مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ معاشرے اور قوم میں کوئی تعمیری جوہر تلاش کر سکوں لیکن اس سعی میں بری طرح ناکام ہوا ۔ عملاً یہ اشعار ملت کے انتشار بے عملی اور بے راہ روی کا نوحہ ہیں ۔ ان حالات میں بھی اقبال کسی مثبت پہلو کے متلاشی نظر آتے ہیں ۔

 
عشقِ بتاں سے ہاتھ اٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگارِ دیر میں خونِ جگر نہ کر تلف

مطلب: اس شعر میں اقبال ملت کو ایک نئی راہ سے آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غیروں کی مدح سرائی اور خوشامد سے احتزاز کرتے ہوئے خود اپنی حقیقت کو پہچاننے اور جاننے کی کوشش کر کہ غیروں کی خوشامد اور کاسہ لیسی میں کسی نوع کی قربانی دینا بے مقصد اور بے فائدہ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ صحیح انسان وہی ہے جو دوسروں کی غلامی کو مسترد کرتے ہوئے اپنی آزادی کا تحفظ کرے ۔

 
کھول کے کیا بیاں کروں سرِ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ با شرف، مرگ حیاتِ بے شرف

مطلب: موت اور عشق کے مابین جو فرق ہے اس کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کر نے کی حاجت نہیں بس اتنا کہہ دینا ہی کافی ہو گا کہ عزت کے ساتھ جان دینے کا نام ہی فی الواقع عشق ہے ۔ اس کے برعکس موت بے شرف اور بے وقار عمل کا نام ہے ۔ مراد یہ ہے کہ بے عزتی اور بے وقار زندگی ہی موت کے مترادف ہے ۔

 
صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سَر بکف

مطلب: اقبال فرماتے ہیں کہ مولانا روم کی تعلیمات نے مجھ پر یہ راز منکشف کیا کہ لاکھوں فلسفی اپنے علوم کو دوسروں تک پہنچانے کے باوجود ایک ایسے شخص کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو عالم با عمل ہے اور عشق حقیقی سے سرشار ہے اور اپنا یہ جذبہ دوسروں میں منتقل کرتا ہے ۔

 
مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درختِ طور سے آتی ہے بانگِ لا تخف

معانی: معرکہ آزما: جنگ کرنے والا ۔ لا تخف: مت ڈر ۔
مطلب: اس شعر کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح فرعون سے نبرد آزما ہونے کی روایت اگر کوئی آج کے عہد میں بھی زندہ رکھنے کا اہل ہو تو جس طرح فرعون کے خلاف خداوند تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی مدد کی تھی اس طرح آج بھی وہ ایسے شخص کا یقینا مددگار ہو گا ۔ مراد یہ ہے کہ باطل کے خلاف نبرد آزما ہونا ہی حمایت خداوندی کی بنیاد بنتا ہے ۔

 
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہَ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

مطلب: اس نظم کے آخری شعر میں اقبال عملاً اپنے ذاتی عقیدے کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب و دانش نے اپنی تمام تر جلوہ طرازی کے مجھے اس لیے متاثر نہیں کیا کہ میرا واسطہ تو مدینہ و نجف سے ہے ۔ یعنی حضور سرورکائناتﷺ اور امیر المومنین حضرت علی کی تعلیمات نے ہی مجھے وہ بصیرت عطا کی جس کے بعد کسی دوسرے کے فرمودات کی ضرورت نہیں رہتی ۔