فنونِ لطیفہ
اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
معانی: فنون لطیفہ: لطیف فن جن میں مصوری، ادب،شاعری، موسیقی وغیرہ آتی ہے ۔ اہل نظر: بینائی والے لوگ ۔ ذوقِ نظر: دیکھنے کی لذت ۔ خوب: اچھی ۔ شے: چیز ۔ حقیقت: اصلیت ۔
مطلب: اے کائنات اور اشیاء کو اپنی ظاہری نظر سے دیکھنے والو دیکھنے کا ذوق ، لذت اور چاشنی بڑی اچھی چیز ہے لیکن اشیائے ظاہر کو دیکھنا اور ان کی حقیقت سے آگاہ ہونا یہ دیکھنا دیکھنا نہیں ہے ۔ دیکھنا وہ ہے کہ آدمی اشیا کے ظاہر کو دیکھتا ہو اس کے باطن کو دیکھ لے ۔ کیونکہ کسی چیز کی اچھائی اور برائی کا اصل پتہ اس کی حقیقت سے چلتا ہے نہ کہ ظاہر بینی سے ۔
مقصودِ ہنر سوز حیاتِ ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثلِ شرر کیا
معانی: مقصود ہنر: ہنر تخلیق کرنے کا مقصد ۔ سوزِ حیات ابدی: ہمیشہ کی زندگی کا سوز ۔ ایک نفس یا دو نفس: ایک سانس یا دو سانس کے لیے ۔ مثل شرر: چنگاری کی مانند ۔ کیا: بے کار ہے ۔
مطلب : ہنر اور فن کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اس میں زندگی کا دائمی سوز بھر دیا جائے ۔ زمانہ گذشتہ ہو کہ آئندہ یا زمانہ حاضر ہو ہر زمانے میں اس کا سوز دیکھنے والے کو متاثر کرنے والا ہو یہ ایک لمحہ یا دو لمحوں کے لیے اس کے اثر کا رہنا اور پھر مٹ جانا یہ ادب و ہنر کی شان کے شایان نہیں ۔ عہد حاضر کے فنون و ہنر اسی طرز کے ہیں کہ ان میں و قتی سوز اور حسن تو ہوتا ہے لیکن دائمی نہیں ہوتا ۔
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا اے قطرہَ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
معانی: متلاطم ہونا: ہلچل پیدا ہونا، طوفان کا آنا ۔ نیساں : ایک خاص موسم بہار کا بادل ۔ صدف: سیپ ۔ گہر: موتی ۔ کیا: بے کار ہے ۔
مطلب: اے ایک خاص موسم بہار کے بادل سے برسنے والے قطرے جس کی قسمت میں موتی بننا ہوتا ہے اگر تجھ سے دریا کے اندر ہلچل اور طوفان پیدا نہ ہو جائے تو پھر وہ سیپ جس میں موتی پیدا ہوتا ہے اور خود موتی بے کار ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ایسا فن لطیف جس سے دریائے زندگی میں تلاطم پیدا نہ ہو اگر دیکھنے میں موتی جیسی آب والا بھی کیوں نہ ہو بے کار ہے ۔ اصل ہنر اور اصل فن وہ ہے جو آدمی کی زندگی کے اندر حرارت اور تپش پیدا کر دے ۔
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا
معانی: نوا: آواز، شاعری ۔ مغنی: گانے والا ۔ نفس: سانس یا گانا ۔ افسردہ: بجھا ہوا ۔ بادِ سحر: صبح کی ہوا ۔
مطلب: فنون لطیفہ میں سے یہاں دو کی مثال دے کر شاعر نے جملہ فن ہائے لطیف کے متعلق فیصلہ دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں اگر کسی شاعر کی شاعری یا کسی گانے والے کا نغمہ قاری اور سامع کے دل میں زندگی کی حرارت پیدا نہیں کرتا تو وہ بے حقیقت ہے ۔ جس طرح صبح کی وہ نرم و لطیف ہوا بے حقیقت ہوتی ہے جو باغ میں آئے تو سہی لیکن اس کی وجہ سے غنچوں کے کھلنے اور پھولوں پر تازگی آنے کی بجائے بجھی بجھی سی کیفیت پیدا ہو جائے یعنی ان پر پژمردگی طاری ہو جائے ۔
بے معجزہ دنیا میں اُبھرتی نہیں قومیں جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا، وہ ہنر کیا
معانی: بے معجزہ:بغیر معجزہ کے، بغیر اعجاز کے ۔ ابھرتی نہیں : ترقی نہیں کرتیں ۔ ضرب کلیمی: کلیم حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لقب ہے کیونکہ وہ خدا سے ہم کلام ہوتے تھے ۔
مطلب: جس طرح معجزہ کو عقل نہیں سمجھ سکتی اور وہ عام قانون، اصول اور ڈگر سے ہٹ کر ہوتا ہے اسی طرح دنیا میں جب کوئی قوم ترقی کرنے پر آتی ہے تو اس کے افراد بھی ایسے کارنامے سرانجام دیتے ہیں جو معجزہ سے کم نہیں ہوتے اسی طرح جس ہنر میں ضرب کلیمی جیسا معجزہ نہ ہو جو ہنر اپنے قاریوں اور نظارگیوں کے دلوں میں اور ان کی زندگیوں میں اسی طرح کا انقلاب پیدا نہ کر دے جو حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے اپنے عصا کی ضرب سے کیا تھا کہ کہیں چشمے پھوٹ پڑتے تھے اور کہیں دریا نیل دولخت ہو گیا تھا وہ ہنر بے کار ہے ۔ علامہ اسی لیے برصغیر کے مصوروں کی مصوری ، شاعروں کی شاعری، ادیبوں کے ادب، سازندوں کی سازندگی اور موسیقاروں کی موسیقی کے خلاف ہیں کہ یہ سب بے تب و تاب اور بے حرارت و تپش فن ہیں جن سے زندگی ابھرنے کی بجائے افسردہ ہوتی ہے ۔