Please wait..

مسلمان اور تعلیم جدید
(تضمین بر شعر ملک قمی)

 
مرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلمِ شوریدہ سَر
لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامانِ سفر

معانی: جدید تعلیم: دورِ حاضر کی تعلیم جس پر مغربی قوموں کی تعلیم کا اثر ہے ۔ ملک قُمی: ایران کے مشہور شہر قم کا رہنے والا تھا 1579ھ میں دکن پہنچا جہاں ابراہیم عادل شاہ والی بیجا پور نے اسے درباری شاعر بنایا ۔ مرشد: رہنما ۔ شوریدہ سر: ویوانہ، جس کا دماغ کام نہ کر رہا ہو ۔ رہرو: مسافر ۔ سامانِ سفر: زادِ راہ ۔
مطلب: مجھے مرشد نے یہ تعلیم دی تھی کہ اے مسلمان! اس دنیا میں ہر راہ رو کے لیے لازم ہے کہ ہر لمحے سامان سفر تیار رکھے ۔ مراد یہ ہے کہ کسی لمحے بھی اسے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ لہذا اپنا رخت سفر ہمیشہ تیار رکھے ۔

 
بدلی زمانے کی ہوا، ایسا تغیر آ گیا
تھے جو گراں قیمت کبھی، اب ہیں متاعِ کس مخر

معانی: تغیر: تبدیلی ۔ گراں قیمت: بہت مہنگی ۔ متاعِ کس مخر: ایسی شے جسے کوئی نہ خریدے ۔
مطلب: لیکن اب زمانے کی ہوا اس طرح بدلی ہے اور ایسا انقلاب آیا ہے کہ دنیا کی نادر و نایاب چیزیں بھی اپنی قدر و قمیت کھو بیٹھیں ۔

 
وہ شعلہَ روشن ترا، ظلمت گریزاں جس سے تھی
گھٹ کر ہوا مثلِ شرر، تارے سے بھی کم نور تر

معانی: شعلہَ روشن تر: مراد عربی، فارسی اور مشرقی علوم کی تعلیم ۔ ظلمت: تاریکی، جہالت ۔ گریزاں : دوڑ جانے، دور ہونے ولای ۔ گھٹنا: کم ہونا ۔ مثلِ شرر: چنگاری کی طرح ۔ کم نور تر: بہت کم روشنی والا ۔
مطلب: تجھ میں ایک شعلہ تھا وہ تاریکی کا خاتمہ کر دیتا تھا وہ بتدریج ختم ہوتا رہا ۔ اب تو اس میں ستارے سے بھی کم روشنی ہے ۔

 
شیدائیِ غائب نہ رہ، دیوانہَ موجود ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبودِ حاضر کا اثر

معانی: شیدائی غائب: آنکھوں سے اوجھل شے کا دیوانہ عاشق ۔ معبودِ حاضر: موجودہ دور کے معبود یعنی مال و دولت اور اہل حکومت جن کی اب لوگ گویا پوجا کرتے ہیں ۔
مطلب: اب قوموں پر موجودہ تہذیب کے اثرات اس طرح سے مسلط ہو گئے ہیں کہ وہ خالق حقیقی سے روگردانی کر کے مال و دولت اور حکمرانوں کی بت پرستی کی طرف مائل ہیں ۔

 
ممکن نہیں اس باغ میں کوشش ہو بارآور تری
فرسودہ ہے پھندا ترا، زیرک ہے مرغِ تیز تر

معانی: بارآور: کامیاب جس کا کوئی نتیجہ سامنے آئے ۔ فرسودہ: گھسا ہوا، بہت پرانا ۔ پھندا: جال ۔ زیرک: چالاک، ہوشیار ۔ مرغِ تیزتر: تیز اڑنے والا پرندہ، یہاں کی دوسری قو میں جو تعلیم میں آگے تھیں ۔
مطلب: اے اقبال ! لگتا تو یوں ہے کہ اس معاشرے میں تیری انقلابی کوششیں بارآور نہ ہو سکیں اس لیے کہ تیرے نظریات فرسودہ ہیں اور تہذیب جدید زیادہ تیز طرار ہے ۔

 
اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا
ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر

معانی: امراض: جمع مرض، بیماریاں ۔ خونِ فاسد: گندا خون ۔ نیشتر: رگ کو چھیڑ کر خون نکالنے والا اوزار ۔
مطلب: سچ تو یہ ہے کہ اس عہد میں تمام معاشرتی نقاءص کا علاج تعلیم اور صرف تعلیم کا حصول ہے فی الواقع تعلیم ہی خون فاسد کے لیے نیشتر کی مانند ہے ۔

 
رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے
واجب ہے صحرا گرد پر تعمیلِ فرمانِ خضر

معانی: ایما: حکم، اشارہ ۔ سودا: جنون، عشق ۔ واجب: ضروری ۔ صحرا گرد: ریگستانوں ، جنگلوں میں پھرنے والا ۔ خضر: مراد رہنما ۔
مطلب: چنانچہ اقبال کہتے ہیں کہ اپنے رہبر کے ارشاد کے سبب میں نے بھی حصول علم کی خاطر دن رات ایک کر دیے لیکن ہوا یوں کہ میں حقیقی راہ سے بھٹک کر رہ گیا ۔

 
لیکن نگاہِ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری
رفتم کہ خاز از پا کشم محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شُد

معانی: نکتہ بیں : بھیدوں کو جاننے والا، گہری باتوں سے آگاہ ۔ زبوں بختی: بدنصیبی ۔
مطلب: لیکن میری بدنصیبی کہ میرے بھیدوں کو جاننے والا دل نے دیکھا اور مجھے معلوم ہوا کہ جدید تعلیم چھوٹے امراض کا علاج تو ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بڑے امراض میں مبتلا کر دیتی ہے اور انسان حقیقت سے غافل ہو جاتا ہے ۔ میں لیلیٰ کے محمل کا تعاقب کر رہا تھا اور ذرا پاؤں کا کانٹا نکالنے لگا تو اس غفلت میں محمل آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔ گویا ایک لمحے کی غفلت سے مرا راستہ صدیوں دور جا پڑا ۔