(۱۲)
سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں ، جاہل ہوں میں
معانی: سختی کرنا: ظلم کرنا ۔ غیر : مراد اللہ کے سوا جو کچھ ہے ۔ کیا اچھی بات کہی: ظالم ہوں ، جاہل ہوں ۔ ایک قرآنی آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں انسان کو ظلوماً جہولا یعنی ظالم جاہل کہا گیا ہے ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں اقبال کہتے ہیں کہ اپنے دشمن کی ہر زیادتی کو نظر انداز کر کے میں خود اپنی ذات پر ایک طرح سے جبر کر رہا ہوں ۔ اس کے باوجود اس امر کا طعنہ دیا جاتا ہے کہ میں ظالم اور جاہل ہوں ۔
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمودِ حق سے مٹ جاتا ہے، وہ باطل ہوں میں
معانی: جبھی تک: اس وقت تک ۔ جلوہ پیرائی: مراد خدا کی تجلی ظاہر ہونا ۔ نمودِ حق: حق ، خدا کا ظہور ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال حق تعالیٰ کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا وجود ان لمحات تک ہی برقرار تھا جب تک کہ تو نے اپنا جلوہ نہیں دکھایا تھا ۔ دراصل میری ذات تو ایسے باطل کی طرح ہے جو سچائی کے نمودار ہوتے ہی غائب ہو جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ میں جلوہَ خداوندی کا ادراک حاصل ہوتے ہی خود کو اس میں ایسے جذب کر لیا جیسے حقیقت کے نمودار ہوتے ہی جھوٹ غائب ہو جاتا ہے ۔
علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست وائے محرومی! خزف چین لبِ ساحل ہوں میں
معانی: غوطہ زن: ڈبکی لگانے والا، والے ۔ گوہر بدست: ہاتھوں میں موتی لیے ۔ وائے محرومی: افسوس ہے بدنصیبی پر ۔ خزف چین: ٹھیکریاں چننے والا ۔ لبِ ساحل: کنار پر ۔
مطلب: اگر علم کو ایک دریا تصور کر لیا جائے تو اہل طلب اس دریا میں غوطہ لگا کر جب سطح پر برآمد ہوئے تو وہ علم سے مالامال تھے ۔ اس کے برعکس میری کیفیت یہ تھی کہ میں اس دریا کے کنارے کھڑا کنکر چنتا رہا ۔ مراد یہ ہے میں نے حصول علم کے لیے کوئی تک گو دو نہ کی چنانچہ یہ فطری امر ہے کہ اس دولت سے محروم رہا ۔
ہے مری ذلت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل جس کی غفلت کو ملک روتے ہیں ، وہ غافل ہوں میں
شرافت: شریف ہونا ۔ جس کی: مراد انسان کی ۔ غفلت: لاپرواہی، بھول چوک ۔ ملک: فرشتہ ۔ روتے ہیں : افسوس کرتے ہیں ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے حضرت آدم کے جنت سے نکلنے کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ تذلیل عملاً میری شرافت کی دلیل بن گئی کہ اپنی غفلت کے سبب جب مجھے جنت سے نکلنے کا حکم دیا گیا تو اس حکم پر فرشتے بھی گریاں کناں ہوئے تھے ۔
بزم ہستی! اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو تو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں
معانی: بزم ہستی: وجود کی محفل، کائنات ۔ آرائش: سجاوٹ ۔ نازاں ہونا: فخر کرنا ۔ محفل ہوں میں : انسان ہی سے کائنات میں رونق ہے ۔
مطلب: اے دنیا! نہ جانے کس لیے تجھے اپنی آرائش و زیبائش پر اس قدر فخر و غرور ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تو جس محفل کا پرتو ہے وہ محفل میں ہی تو ہوں ۔ مراد یہ ہے کہ انسان کا وجود ہی دراصل دنیا کی آرائش و زیبائش کا سبب ہے ۔ انسان نہ ہو تو یہ دنیا ایک ویرانہ بن کر رہ جائے ۔
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں
مطلب : غزل کے اس مقطع میں اقبال خود شناسی کے عمل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں تو خود ہی اپنے وجود کی تلاش میں سرگرداں ہوں حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ میں تو خود ہی مسافر اور خود ہی منزل ہوں ۔