یورپ سے ایک خط
ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار اک بحرِ پُر آشوب و پُر اَسرار ہے رومی
معانی: خوگر محسوس: سامنے نظر آنے والی شے کے عادی ۔ بحر: سمندر ۔ آشوب: مشقت انگیز ۔ پر اسرار: چھپے ہوئے ۔
مطلب: اس نظم میں پیر و مرید کے انداز میں مرید ہندی کے کردار میں خود اقبال ہیں جو بعض ایسے استفسارا تراشتے ہیں جن کے جوابات بڑے حکیمانہ انداز میں مولانا روم نے دیے ہیں ۔ نظم کے پانچ اشعار میں تین اشعار تو خود علامہ اقبال کے ہیں جن کا متن یورپ سے علامہ کے نام ایک خط سے ماخوذ ہے ان اشعار میں مولانا روم کی حکمت و دانش کے حوالے سے بعض سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب آخری دو اشعار میں موجود ہے اور یہ دونوں اشعار مولانا روم کے ہیں ۔ مکتوب نگار علامہ اقبال سے اپنے خط میں استفسار کرتا ہے کہ ہم لوگ تو خیر اس امر کے عادی ہو چکے ہیں ک ایک تماشائی کی حیثیت سے ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کا نظارہ کریں مراد یہ ہے کہ ہماری نظریں محض مادی اشیاء کے نظارے تک محدود رہیں جب کہ مولانا روم تو معرفت اور روحانیت کا ایک ایسا سمندر ہیں جس کی گہرائی اور وسعت کا اندازہ مشکل ہے ۔
تو بھی ہے اسی قافلہَ شوق میں اقبال جس قافلہَ شوق کا سالار ہے رومی
معانی: سالار: رہنما ۔
مطلب: آپ کا تعلق بھی تو اسی سلسلہ شوق سے ہے جس سلسلہ شوق کے سرکردہ رہنما مولانا روم ہیں یعنی آپ بھی ان کی طرح معرفت اور روحانیت پر یقین رکھتے ہیں ۔ اس صورت میں آپ با آسانی اس امر کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ مولانا روم کا نظریہ کیا ہے ۔
اس عصر کو بھی اس نے دیا ہے کوئی پیغام کہتے ہیں چراغِ رہِ اَحرار ہے رومی
معانی: عصر: عہد حاضر ۔ چراغِ رہ احرار: غازیوں کی راہ کا دیا ۔
مطلب: ازرہ کرم یہ تو فرمائیے کہ مولانا روم کو تو خدا دوست اور آزاد منش لوگوں کا رہنما تصور کیا جاتا ہے تو کیا انھوں نے اس ضمن میں عصرِ موجود کو بھی کوئی پیغام دیا ہے یا نہیں
جواب
کہ نباید خورد و جو، ہمچوں خراں آہوانہ در ختن چر ارغواں
مطلب: اس شعر میں مولانا روم کا فرمان ہے کہ گھاس اور جو تو گدھوں کی خوراک ہے اور ختن کی پہاڑیوں کے باسی ہرن جو مشک نافہ پیدا کرتے ہیں نارنجی رنگ کا خوبصورت ، میٹھا اور نشہ آور پھل ارغوان کھاتے ہیں ۔ اسی کے سبب مشک کی پیداوار کے لیے ان کے خون میں مطلوبہ جوہر پیدا ہوتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مادیت بے شک تن پروری کے کام تو آ سکتی ہے جب کہ روحانیت کی طفیل انسان کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ پوری فضا کو متاثر کر دیتا ہے ۔
ہر کہ کاہ و جو خورد قرباں شود ہر کہ نورِ حق خورد قرآں شود
مطلب: مولانا اس شعر میں فرماتے ہیں کہ گھاس اور جو کھانے والا بھیڑ بکری اور گائے بیل کی طرح ذبح کر دیا جاتا ہے تاکہ دوسروں کی تن پروری کا سبب بن سکے ۔ اس کے برعکس جو شخص نور خداوندی پر اکتفا کرتا ہے اس کا سینہ روحانیت سے منور ہو جاتا ہے وہ قرآن کی مانند دوسروں کے لیے رہنمائی کا سبب بن جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ انسان میں صلاحیت ہو اور رہنمائی کا جوہر موجود ہو تو اس کے طفیل پورا ماحول منور ہو کر رہ جاتا ہے ۔