Please wait..

ارتقا

 
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی

معانی: ارتقا: درجہ بدرجہ ترقی کرنا، بلندی کی طرف بڑھنا ۔ ستیزہ کار: لڑنے جھگڑنے والا ۔ تا امروز: آج تک ۔ چراغ مصطفوی: محمد مصطفی کا چراغ یعنی حق کا چراغ ۔ شرار بولہبی: ابولہب کفر و باطل کی چنگاریاں ، آگ ۔
مطلب: زیرِ نظر تشریح نظم میں اقبال نے اسلام کے حوالے سے مسئلہ ارتقاء پر روشنی ڈالی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سے کائنات وجود میں آئی ہے کفر باطل اور حق و صداقت کے مابین آویزش جاری ہے اور کفر اسلام کے خلاف ہمیشہ سے معرکہ آرا رہا ہے ۔

 
حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز
سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی

معانی: شعلہ مزاج: آگ کی سی طبیعت، عمل میں سرگرم رہنے والی ۔ شور انگیز: جذبے ابھارنے والی ۔ مشکل کشی: مشکلیں برداشت کرنے کی حالت ۔ جفا طلبی: مراد خوشی سے سخت قسم کی جدوجہد اور عمل کرنا ۔
مطلب: زندگی اپنے مزاج کے اعتبار سے ہمیشہ شعلہ مزاج، غیور اور ہنگامہ خیز رہی ہے ۔ اس کی سرشت میں مشکلات اور دشواریاں جھیلتا رہا ہے یعنی آرام و سکون زندگی کی فطرت سے ربط نہیں رکھتے ۔

 
سکوتِ شام سے تا نغمہَ سحر گاہی
ہزار مرحلہ ہائے فغانِ نیم شبی

معانی: سکوت: خاموشی ۔ نغمہَ سحر گاہی: صبح کے وقت کا ترانہ یعنی صبح ۔ ہزار: بے شمار ۔ مرحلہ ہا: جمع مرحلہ، منزلیں ۔ فغانِ نیم شبی: آدھی رات کے وقت اللہ کے حضور عاجزی و فریاد کرنے کی حالت ۔
مطلب: شام کے سکوت سے لے کر طلوع سحر تک رات بظاہر خاموشی سے گزرتی ہے لیکن اس کی خاموشی میں ہزار نالے اور آہیں پوشیدہ ہوتی ہیں ۔

 
کشاکشِ زم و گرما، تپ و تراش و خراش
ز خاکِ تیرہ دروں تا بہ شیشہَ حلبی

مطلب: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حلب میں تاریک مٹی سے بڑا نفیس اور خوبصورت آئینہ تیار ہوتا ہے لیکن مٹی کو آئینے تک پہنچنے کے لیے ہزار ہا مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔

 
مقامِ بست و شکست و فشار و سوز و کشید
میانِ قطرہَ نیسان و آتشِ عنبی

مطلب: موسم بہار میں برسنے والی بار ش کے ایک قطرے اور شراب انگور کے مابین بظاہر کوئی فرق نہیں لیکن بارش کا یہ قطرہ انگور کی کاشت اس کے بعد کشیدگی کے عمل اور شراب کی تیاری تک نہ جانے کتنا سفر طے کرتا ہے ۔

 
اسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام
یہی ہے رازِ تب و تاب ملت عربی

معانی: کشاکش: کھینچا تانی ۔ پیہم: لگاتار ۔ تب و تاب: گرمی اور تپش یعنی جوش، ولولے اور جذبے ۔ ملت عربی: مسلمان قوم ۔
مطلب: زندگی میں اسی مسلسل جدوجہد اور کشاکش پیہم کے سبب ہی قو میں زندہ رہتی ہیں اور ملت اسلامیہ کو جو عروج حاصل ہوا اس کا راز بھی یہی ہے ۔

 
مغاں کہ دانہَ انگو آب می سازند
ستارہ می شکنند آفتاب می سازند

مطلب: شراپ بنانے والے بظاہر انگور کو پانی بناتے ہیں جب کہ عملاً وہ ستارے توڑ کر ان سے سورج بناتے ہیں ۔