Please wait..

طلوعِ اسلام

 
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب ابھرا، گیا دورِ گراں خوابی

معانی: طلوع: سورج کا نکلنا، مراد اسلام کی اشاعت ۔ تنک تابی: ہلکی روشنی، ٹمٹماہٹ ۔ افق: آسمان کا کنارہ ۔ آفتاب ابھرا: سورج نکلا ہے ۔ گراں خوابی: گہری نیند سونے یعنی غفلت کا زمانہ ۔
مطلب: شب کے آخری لمحات میں ستاروں کی روشنی جس طرح سے ماند پڑی رہی ہے اس سے اس امر کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ صبح نمودار ہونے والی ہے ۔ جلد ہی افق سے سورج طلوع ہو گا اور پوری کائنات گہری نیند سے بیدار ہو جائے گی ۔

 
عروق مردہَ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی

معانی: عروقِ مردہ: بے جان رگیں ۔ مشرق: مشرق بالخصوص مسلم ممالک ۔ خونِ زندگی دوڑا: بیداری کی لہر پیدا ہوگئی ۔ سینا و فارابی: بو علی سینا اور محمد بن طرخان ابو نصر فارابی دونوں مشہور فلسفی، مراد تمام فلسفی ۔
مطلب: چنانچہ مشرق کی مردہ رگوں میں اسی سبب زندگی کا گرم لہو دوڑنے لگا ہے تاہم یہ صورت حال ایک ایسے راز سے ہم آہنگ جسے بو علی سینا اور فارابی جیسے دانشور اور فلسفی بھی نہیں سمجھ سکتے ۔

 
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

معانی: مسلماں کر دیا: صحیح معنوں میں اسلام کا شیدائی بنا دیا ۔ طوفانِ مغرب: یورپ کا ہنگامہ ۔ تلاطم ہائے: تلاطم کی جمع ۔ تھپیڑے، پانی کی طغیانی ۔ گوہر: موتی مراد مسلمان ۔ سیرابی: تازگی، چمک دمک ۔
مطلب: مغرب میں جو تہذیب و تمدن کو فروغ ہوا ہے اور وہاں کے استعمار نے جس طرح کمزور ملکوں خصوصیت سے مسلم حکومتوں کو زیر نگیں کر لیا ہے اس کا رد عمل بالاخر دنیا بھر کے مسلمانوں میں رونما ہونے لگا ہے ۔ اس صورت حال نے انہیں پھر سے اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع ہونے کی ترغیب دی ہے ۔ اس لیے موجوں کے تند و تیز تھپیڑے ہی ایک معمولی قطرہَ آب کو قیمتی گوہر میں ڈھال دیتے ہیں ۔

 
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نُطقِ اعرابی

معانی: درگاہ حق: خدا کی بارگاہ، دربار ۔ شکوہ ترکمانی: ترکوں کا سا دبدبہ اور شوکت ۔ ذہن ہندی: ہندوستان کے لوگوں کی سی دانائی اور بصیرت ۔ نطقِ اعرابی: عربوں کی زبان یعنی عربوں کی سی فصاحت ۔
مطلب: اب وقت آ پہنچا ہے کہ مرد مسلمان کو ایک بار پھر ترکوں جیسی شان و شوکت، ہندوستانیوں جیسی فکر اور عربوں جیسی تہذیب اور فصاحت و بلاغت کے جوہر عطا ہوں ۔

 
اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی

معانی: غنچوں : کلیوں یعنی مسلمانوں ۔ بلبل: شاعر، خود علامہ اقبال ۔
مطلب: اس کے باوجود اگر مسلمانوں میں ذہنی سطح پر زوال کے کچھ اثرات باقی ہیں تو یہ اب شاعروں اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں زیادہ بلند آواز کے ساتھ خواب غفلت سے بیدار کریں ۔

 
تڑپ صحنِ چمن میں ، آشیاں میں ، شاخساروں میں
جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیرِ سیمابی

معانی: تڑپ: بے چینی، جذبہ عشق کے سبب بے قراری ۔ شاخسار: درخت کا اوپر کا حصہ جو بہت ٹہنیوں والا ہوتا ہے ۔ تقدیرِ سیمابی: پارے کی طرح ہلتے رہنے کی حالت ۔
مطلب: یہ امر پیش نظر رکھتے ہوئے کہ پارے کی فطرت میں جو اضطرابی کیفیت ہے وہ کسی طور پر بھی نہیں بدل سکتی ۔

 
وہ چشمِ پاک بیں کیوں زینتِ برگستواں دیکھے
نظر آتی ہے جس کو مردِ غازی کی جگر تابی

معانی: چشمِ پاک بیں : صاف یا واضح دیکھنے والی آنکھ ۔ برگستواں : گھوڑے کا ساز و زین، مراد ظاہری سجاوٹ ۔ جگر تابی: دل کی تڑپ، باطن کی بیقراری ۔
مطلب: وہ صاف اور واضح طور پر دیکھنے والی آنکھ جنگ میں دوڑتے ہوئے گھوڑے کی آرائش کو کیوں دیکھے جبکہ اس کو ایک مردِ غازی کی جگر کی بے قراری پر بھی نگاہ پہنچ گئی ہے ۔

 
ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے

معانی: ضمیر لالہ: یعنی مسلمان کا باطن ۔ آرزو: عظمتِ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کی خواہش ۔ چمن کا ذرہ ذرہ: یعنی ملت کا ہر فرد ۔ شہید: مارا ہوا یعنی شیدائی ۔
مطلب: اے شاعر یہ تیری ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کے مردہ دلوں میں پھر سے زندگی کی تڑپ بھر دے ۔ آرزووَں اور امیدوں کے چراغ روشن کر دے ۔ یہی نہیں بلکہ تیرے پیغام میں اتنی شدت ہو کہ ملت کا ایک ایک فرد تحقیق و جستجو کا والہ و شیدا بن جائے ۔

 
سرشکِ چشمِ مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا

معانی: سرشک: آنسو ۔ نیساں : بارش کا وہ قطرہ جو سیپی کے منہ میں پڑ کر موتی بنتا ہے ۔ خلیل اللہ: خدا کا دوست، حضرت ابراہیم کا لقب ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ جس طرح موسم بہار کے بادلوں سے تازگی اور قوت تخلیق کے اثرات نمودار ہوتے ہیں یہی کیفیت اب مسلمانوں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسووَں میں موجود دکھائی دیتی ہے ۔ اس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد میں پھر سے وہ قوت عمل بیدار ہونے لگی ہے جو کبھی ان کے اسلاف کا ورثہ ہوا کرتی تھی ۔

 
کتابِ ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

معانی: ملت بیضا: روشن قوم، ملت اسلامیہ ۔ شیرازہ بندی: یعنی اتفاق، تنظیم، اور اتحاد ۔ شاخِ ہاشمی: یعنی دنیائے اسلام ۔ برگ و بر: پتے اور پھول ۔
مطلب: ملت مسلمہ ایک بار پھر سے یکجا و متحد ہو کر باطل کے خلاف صف آرا ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں امت محمدی اپنی منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہونے کو ہے ۔

 
ربود آں تُرک شیرازی دلِ تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا

معانی: صبا: صبح کی خوشگوار ہوا ۔ بوئے گل: پھول کی خوشبو ۔ ہم سفر: سفر کا ساتھی ۔
مطلب:اس شیرازی محبوب نے تبریز اور کابل کا دل اڑا لیا ہے ۔ جس طرح صبا پھولوں کی خوشبو کو اپنا ہم سفر بنا لیتی ہے اسی طرح دوسرے علاقوں کے مسلمان بھی ترکوں کی طرح بیدار ہو گئے ہیں ۔

 
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

معانی: عثمانیوں : ترک، جن کے بزرگ کا نام عثمان تھا ۔ کوہِ غم ٹوٹا: اشارہ ہے 1914 کی عالمگیر جنگ کی طرف جب بے شمار ترک مارے گئے ۔ خون صد ہزار انجم: لاکھوں ستاروں کا خون ۔
مطلب: اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس عمل میں ترکوں کو بے حد قربانیاں دینی پڑیں اور بے حد دکھ اٹھانے پڑے لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ لاکھوں ستاروں کی موت سے ہی نمود سحر کامیاب بنتی ہے ۔ یعنی قربانیوں کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ۔

 
جہانبانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

معانی: جہانبانی: دنیا پر حکومت کرنے کا طور طریقہ ۔ جہاں بینی: دنیا کے حالات و واقعات پر نظر ۔ دشوار تر: زیادہ مشکل ۔ کار: کام ۔ جگر خون ہونا: بیحد جدوجہد، تکالیف برداشت کرنا ۔ چشم دل: بصیرت ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اس حقیقت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ گردوپیش کے معاملات اور ان کے بارے میں حقیقت تک رسائی کا عمل کسی ملک پر حکمرانی سے زیادہ مشکل امر ہے ۔ اس لیے کہ دل خون ہو کر بہ جائے تو چشم بصیرت وا ہوتی ہے ۔

 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پید ا

معانی: ہزاروں سال: ایک طویل مدت تک ۔ بے نوری: آنکھوں کا روشن نہ ہونا ۔ نرگس: وہ پھول جس کی شکل کی بنا پر اسے آنکھ سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ دیدہ ور: آنکھوں والا، صاحب نظر ۔
مطلب: نرگس کا پھول جو آنکھ سے مشابہت رکھتا ہے وہ ہزار ہا سال بینائی سے محرومی کے کرب میں مبتلا رہتا ہے اس کے باوجود بصارت پھر بھی اس کا مقدر نہیں بنتی کہ اس کا حصول بے حد مشکل ہے ۔ مراد یہ ہے کہ انسان آنکھیں رکھنے کے باوجود بصیرت حاصل کرنے کے لئے بڑے مرحلوں سے گزرتا ہے ۔

 
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں ہو شاہیں کا جگر پیدا

معانی: نوا پیرا ہونا: چہچہانا، مراد جوش و جذبہ ابھارنے والے شعر کہنا ۔ بلبل: شاعر ۔ کبوتر: مشہور پرندہ، مراد کمزور اور محکوم مسلمان ۔ شاہیں کا جگر: مراد شاہین کی سی جرات، دلیری اور بے خوفی ۔
مطلب: اے شاعر! اب تجھ پر یہ امر پھر سے لازم ہو گیا ہے کہ افراد ملت جو ایک عرصے سے بے عملی کا شکار رہے ہیں تیرے پر جوش نغموں سے ان کے خون میں حدت پیدا ہو جائے اور وہ ماضی کی طرح جرات و ہمت سے کام لے کر صف آرائی کے لئے تیار ہو سکیں ۔

 
ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے

معانی: حدیث: بات ۔ سوز و ساز: جلنے اور بنانے کی حالت ۔
مطلب: اس مقصد کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ اے شاعر! تیرے سینے میں زندگی کا جو راز پوشیدہ ہے وہ منکشف کر دے اور مسلمانوں کو زندگی کے ان تمام نشیب و فراز سے آگاہ کر دے جو ان کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔

 
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے

معانی: لم یزل: ہمیشہ باقی رہنے والا ، لازوال ۔ دست: ہاتھ ۔ قدرت: قوت، طاقت، اقتدار ۔ یقیں پیدا کر: اپنی صلاحیتوں پر اعتماد پیدا کر ۔
معانی: اے شاعر! اب وقت آ گیا ہے کہ مر دمسلمان کو اس حقیقت سے آشنا کر دے کہ اس دنیا میں تو ہی ازل سے ابد تک رب ذوالجلال کا نائب ہے تو ہی اس کی زبان اور قدرت کاملہ کا مظہر ہے ۔ چنانچہ اپنی حقیقت کو پوری طرح سے جاننے کے لئے یقین و اعتماد حاصل کرنا ناگزیر ہے ۔

 
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں ، وہ کارواں تو ہے

معانی: پرے ہے: یعنی بلند تر ہے ۔ چرخ: آسمان ۔ گردِ راہ: مسافر کے پاؤں سے اڑنے والی مٹی ۔
مطلب: اے مسلمان ذرا غور تو کر کہ تیری منزل مقصود تو آسمان سے بھی کہیں آگے ہے ۔ تیرے بلند مقاصد کے سامنے ستارے بھی گرد کارواں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

 
مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے

معانی: مکیں : رہنے والا ۔ آنی: وقتی، فانی ۔ ازل تیرا ابد تیرا: یعنی ازل سے لیکر ابد تک جو کچھ بھی ہے تیرا ہے ۔ خدا کا آخری پیغام : آخری ہادی ۔
مطلب: اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ عالم امکاں فانی ہے اور اس میں موجود باشندے بھی فانی ہیں ۔ ان کی ذات آنی جانی ہے ۔ صرف ایک تو ہی ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے ۔ ازل سے ابد تک جس کی زندگی باقی رہے گی اس لیے کہ ایک تو ہی رب ذوالجلال کا آخری پیغام ہے ۔ اسی باعث اے مسلمان تو ہمیشہ قائم دائم رہے گا ۔

 
حِنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے، معمار جہاں تو ہے

معانی: حنا بند عروس لالہ: دنیا کے باغ کی دلہن کو مہندی لگانے والا ۔ خونِ جگر تیرا: تیری توحید پرستی، حسنِ عمل ۔ معمارِ جہاں : دنیا کی تعمیر کرنے والا ۔ توحید پرستی کے سبب اسے امن و سکون کی دنیا بنانے والا ۔
مطلب: تیرا خونِ جگر اس دنیا کے باغ کی دلہن کو مہندی لگانے والا ہے ۔ تیری نسبت حضرت ابراہیم سے ہے جنھوں نے خدا کا گھر تعمیر کیا تھا ۔ لیکن تیری ذمے داری کچھ اور زیادہ ہے یعنی یہ کہ ساری دنیا کی تعمیر کرے اس کو منظم کرے ۔

 
تری فطرت امیں ہے ممکناتِ زندگانی کی
جہاں کے جوہرِ مضمر کا گویا امتحاں تو ہے

معانی: ممکناتِ زندگانی: انسانی زندگی کی فلاح و بہبود سے متعلق ممکن ہو سکنے والی باتیں ۔ جوہر مضمر: خدا تعالیٰ کی چھپی ہوئی نعمتیں ۔
معانی: زندگی کی جس قدر بھی امکانات موجود ہیں دیکھا جائے تو تو ان کا امانت دار ہے اس اعتبار سے یہ پوشیدہ امکانات تیری وساطت سے ہی اہل عالم پر ظاہر ہونگے ۔

 
جہانِ آب و گل سے عالمِ جاوید کی خاطر
نبوت ساتھ جس کو لے گئی، وہ ارمغاں تو ہے

معانی: جہانِ آب و گل: پانی اور مٹی کی دنیا، یہ کائنات ۔ عالمِ جاوید: ایسی دنیا جسے کبھی فنا نہیں ، ابدی دنیا ۔ ارمغان: تحفہ ۔
مطلب: اس عالم فانی سے جو پانی اور مٹی جیسے عناصر سے بنا ہوا ہے جب نبوت ہمیشہ کے لئے عالم جاوداں کے لیے رخصت ہوئی تو صرف اور صرف تیرا وجود ہی اس کے ہمراہ تھا ۔

 
یہ نکتہ سرگزشتِ ملتِ بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تو ہے

معانی: سرگزشت: ماجرا، واقعہ ۔
مطلب: ایک باریک بات جو اس ملت روشن کی گزرے ہوئے ماجرے سے پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تو ایشیا کی تمام اقوام کا پاسباں ہو گا ۔

 
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

معانی: امامت: پیشوائی، الہی منصب ۔
مطلب: اے مسلمان تجھ سے دنیا کی امامت کا کام لیا جانا ہے اس لیے ضروری ہے کہ تو صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھ ۔

 
یہی مقصودِ فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی

معانی: مقصود فطرت: قدرت کی اصل غرض ۔ رمز مسلمانی: مسلمان ہونے کی حقیقت، بھید ۔ اخوت کی جہانگیری: دنیا میں انسانی بھائی چارے کا پھیلاوَ ۔
مطلب: اے مر د مسلمان تیرے لیے لازم ہے کہ تو محبت اور بھائی چارے کے رویے کو ساری دنیا میں عام کر دے ۔ بغور جائزہ لیا جائے تو فطرت کا مقصود بھی یہی ہے اور اسلام کی تعلیمات میں بھی انہی رویوں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔

 
بُتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی

معانی: بتانِ رنگ و خوں : رنگ ، نسل، قبیلے کا تعصب ۔ ملت میں گم ہو جا: اتحاد و اتفاق سے ایک قوم بن جا ۔
مطلب: یہ جو رنگ اور نسل کے بت ہیں ان کو تور کر ہی تو ملت کا ایک جزو بن سکتا ہے ۔ اتحاد و اتفاق کے لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تیری شناخت تورانی، ایرانی اور افغانستانی باشندے کے حوالے سے نہیں بلکہ ملت کے فرد کے طور پر ہو ۔

 
میانِ شاخساراں صحبتِ مرغِ چمن کب تک
ترے بازو میں ہے پروازِ شاہین قہستانی

معانی: میانِ شاخساراں : ٹہنیوں کے درمیان ۔ صحبت: باہم مل بیٹھنے کی حالت ۔ پرواز: اڑنے کی قوت ۔ شاہین قہستانی: پہاڑی علاقے کا شاہین ۔
مطلب: اے مرد مسلماں تو غیروں کے درمیان کب تک اپنی انفرادیت کو گم کرتا رہے گا جب کہ تیرے بازو میں ایسی قوت ہے کہ تو اپنا جہاں آپ تعمیر کر سکتا ہے ۔ تیری ذات تو شاہین جیسی ہے جو بلندی پروازی کے ذریعے اپنے لیے خود ہی شکار کرتا ہے ۔

 
گماں آبادِ بستی میں یقیں مرد مسلماں کا
بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی

معا نی: گمان آباد بستی: یہ دنیا جس میں رہنے والے وہم و گمان اور شک و شبہ کا شکار رہتے ہیں ۔ شبِ تاریک: اندھیری رات ۔ قندیل رہبانی: ترک دنیا کرنے والے کا چراغ ۔
مطلب: یوں بھی تیری ذات میں یقین و اعتماد کا جو عنصر ہے وہ اس اعتماد و یقین سے خالی دنیا میں ایک روشن چراغ کی مانند ہے اور اس روشن چراغ کی ہیَت اس انداز کی ہے جیسے صحرا کی اندھیری رات میں کوئی دیا جگمگا رہا ہو ۔

 
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا زورِ حیدر فقرِ بوذر صدقِ سلمانی 

معانی: قیصر و کسریٰ کا استبداد: مراد شخصی حکومتوں کا ظلم و ستم ۔ زورِ حیدر: حضرت علی علیہ السلام کی قوت بازو ۔ فقر بوزر: حضرت ابوذر غفاری کا صبر و قناعت جو مشہور ہے ۔ صدق سلمانی: حضرت سلمان فارسی کی سچائی ، حضور اکرم کو آپ کی سچائی پر پورا بھروسا تھا ۔
مطلب: تو اس حقیقت سے بھی بے خبر نہ ہو گا کہ ایران و روم کے قیصر و کسریٰ کی ہیبت و سطوت کو حضرت علی کی قوت و شجاعت اور ابوذر غفاری کے فقر اور درویشی کے علاوہ حضرت سلمان فارسی کی صداقت نے ہی تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا ۔

 
ہوئے احرارِ ملت جادہ پیما کس تجمل سے
تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زندانی

معانی: احرارِ ملت: قوم کے آزاد لوگ یعنی مسلمان ۔ جادہ پیما: راستہ طے کرنے والا ۔ تجمل: شان و شوکت ۔ تماشائی: دیکھنے والا ۔ شگافِ در: دروازے کی پٹ کا چھوٹا سا سوراخ ۔ زندانی: قیدی ۔
مطلب: اے مرد مسلمان تیرے بزرگوں کی تاریخ اس امر کی غماز ہے کہ تیرے جرات مند بہادر اسلاف کس شان و شوکت سے اپنے دشمنوں کے خلاف صف آرا ہوئے تھے اور ان کو شکست فاش دی تھی ۔ یہ مناظر ابھی تک تاریخ کا حصہ ہیں ۔

 
ثباتِ زندگی ایمانِ محکم سے ہے دنیا میں
کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی

معانی: ثباتِ زندگی: زندگی کا پائیدار ہونا ۔ محکم: مضبوط ، پختہ ۔ المانی: المان یعنی جرمنی کا رہنے والا ۔ پائندہ تر: زیادہ قائم رہنے والا ۔ تورانی: توران، ترکی کا باشندہ ۔
مطلب: یہ بھی جان لے کہ ایمان محکم ہی وہ خصوصیت ہے جس کے طفیل زندگی پائیدار و استوار ہو سکتی ہے ۔ اس کی مثال جرمن اور ترک ہیں کہ جرمن ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجود بے وسیلہ ترکوں کے جذبہ حریت سے شکست کھا گئے ۔

 
جب اس انگارہَ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا

معانی: انگارہَ خاکی: انسان، اس کے دل کے سوز کی بنا پر انگارہ کہا ۔ بال و پر روح الا میں : حضرت جبرئیل کی سی قوتِ پرواز ۔
مطلب: اے مسلمان اگر تیرے خاکی جسم میں موجود دل میں عشق کا شعلہ جل جائے اور تو یقین کی منزل پر پہنچ جائے تو تُو بے سرو سامانی میں بھی حضرت جبرئیل علیہ السلام جیسی قوت پرواز حاصل کر سکتا ہے ۔

 
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

معانی: شمشیریں : تلواریں ۔ تدبیریں : کوشش، منصوبے ۔ ذوقِ یقیں : پختہ ایمان ۔ زنجیریں کٹ جانا: ہر طرح کی رکاوٹیں ، پابندیاں ختم ہو جانا ۔
مطلب: اقبال کے نظریے کے مطابق غلامی کے دور میں اسلحہ اور تدابیر عملاً اس وقت تک مفلوج ہو کر رہ جاتی ہیں جب تک کہ متعلقہ اقوام کے افراد یقین و اعتماد کی منزل تک نہ پہنچیں ۔ یہی وہ صورت ہے جو غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔

 
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

معانی: مردِ مومن: پختہ ایمان والا مسلمان، مومن کامل ۔
مطلب: ایک مرد مومن جس کا ایمان پختہ ہو چکا ہو اور جو مومن کامل بن چکا ہو اس کے زور بازو کا انداز ہ کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں کہ اس کی نگاہ ہی میں قوموں کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔

 
ولایت، پادشاہی، علمِ اشیاَ کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتہَ ایماں کی تفسیریں

معانی: ولایت: الہٰی حکومت ۔ علم اشیاَ: کائنات کی اشیاَ کی حقیقت جاننے کا علم ۔ نکتہ ایماں : ایمان کی گہری بات ۔ تفسیریں : وضاحتیں ، تشریحات ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ سلطنت، حکومت اور علمی سائنس جس کے ذریعے انسان ہر نوع کی مادی ترقی حاصل کرتا ہے یہ سب ایمان کے ایک نکتے کی توضیح و تشریح سے ہم آہنگ ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ اگر ایمان پختہ ہو تو جملہ عناصر فطری طور پر انسان کے زیر ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

 
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

معانی: براہیمی نظر: حضرت ابراہیم کی سی بصیرت ۔ تصویریں بنانا: خاکہ، نقشہ بنانا ۔
مطلب: حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی یقین کامل اور پر اعتماد نظر عام انسان میں پیدا ہونا ناممکنات سے نہیں لیکن یہ عمل اتنا سہل بھی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ انسانی ہوس اور خواہشات اپنے لیے ایسی راہ متعین کر لیتی ہیں جو ذاتی مفادات کی آئینہ دار ہو ۔

 
تمیزِ بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں ! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

معانی: حَذر: بچو، ڈرو ۔ چیرہ دست: زور، زبردستی سے کام نکالنے والا ۔ فطرت کی تعزیریں : قدرت کی سزائیں ۔
مطلب: قدرت نے انسانوں کو اگرچہ مادی حقوق کا اہل قرار دیا ہے لیکن مفاد پرست اور خودغرض لوگوں نے انہیں آقا اور غلام میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے ۔ اور یہی تفریق خلق خدا کے مابین فساد کا سبب بنی ہے ۔ آقا صرف وہی ہو سکتا ہے جسے خدا نے ولایت عطا کی ہو ۔ اس تفریق و امتیاز کے ذمے دار لوگوں کو خبردار رہنا چاہیے کہ وہ باز نہ آئے تو قدرت ان کو سخت سزا بھی دے سکتی ہے ۔

 
حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں

معانی: خاکی: مٹی کا بنا ہوا، انسان ۔ نوری: فرشتہ: لہو ٹپکنا: قطرہ قطرہ خون گرنا ۔
مطلب: ہر شے خواہ وہ مٹی سے پیدا ہوئی ہو یا نور سے وجود میں آئی ہو ان سب کی حقیقت ایک جیسی ہی ہے ۔ یعنی اگر ذرے کا دل چیرا جائے تو اس میں سے سورج کا لہو ٹپکے گا ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مٹی کا ایک ذرہ اور سورج جو منور ہے عملاً ایک جیسے خواص کے حامل ہیں ا س کا حوالہ تابکار ذرات بھی بن سکتے ہیں ۔

 
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

معانی: یقیں محکم: پکا ایمان ۔ عمل پیہم: مسلسل اور لگاتار جدوجہد ۔ فاتحِ عالم: دنیا کو فتح کرنے والی، انسانی دلوں پر قبضہ کرنے والی ۔ جہادِ زندگانی: مراد زندگی کی کشاکش ۔ مردوں : دلیروں ، مجاہدوں ۔ شمشیریں : تلواریں ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ زندگی کی جدوجہد اور اس کی تسخیر میں یقین کامل، مسلسل جدوجہد اور سب سے محبت اور شفقت ایسے اسلحہ کی مانند ہے جو مرد مومن کی فتح کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔

 
چہ باید مرد را ، طبعِ بلندے، مشربِ نابے
دلِ گرمے، نگاہِ پاک بینے، جانِ بیتابے

معانی: ایک مرد کامل کو کیا چاہیے، بلند فطرتی، خالص دین یعنی محبوب حقیقی کی محبت، جذبوں سے پرجوش و گرم دل، دنیوی حرص و ہوس سے پاک نگاہ اور جذبہ عشق کے سبب بے چین روح ۔

 
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خونِ شفق میں ڈوب کر نکلے

معانی: عقابی شان سے: مراد رعب و دبدبہ سے، اشارہ ہے یونانیوں کے ترکوں پر حملے کی طرف ۔ ستارے شام کے خونِ شفق میں ڈوب کر نکلے: جس طرح آسمانی سرخی میں ستاروں کی روشنی ہلکی پڑ جاتی ہے اور سرخی ہٹتے ہی وہ چمکنے لگتے ہیں ۔ اسی طرح ترک، یونانیوں لشکر کے اس حملے میں جوابی کاروائی کر کے سرخرو ٹھہرے ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ جو قوم اپنے بے شمار سامان جنگ کے ساتھ اپنے حریفوں کے خلاف نبرد آزما ہوئی اس قدر قوت رکھنے کے باوجود شکست کھا گئی اور یوں لگا کہ وہ تو ایک بے بس قوم کی مانند تھی ۔ جبکہ وہ قوم جس کے پاس بظاہر وسائل نہ ہونے کے برابر تھے اپنی جنگ آزادی میں بالاخر کامیاب و کامران ٹھہری (اس مصرعہ میں اشارہ ترکی کی جانب ہے) ۔

 
ہوئے مدفونِ دریا، زیرِ دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو، بن کر گہر نکلے

معانی: زیرِ دریا تیرنے والے: یونانیوں کی آبدوز کشتیاں جنھیں ترکوں نے ڈبو دیا ۔ طمانچے: تھپیڑے ۔
مطلب: ہر چند کہ اہل جرمن فنون حرب میں مہارت کے سبب سمندروں کی تہہ میں بھی تیرنے کی صلاحیت رکھتے تھے پھر بھی وہ آخر کار وہیں غرق ہو کر رہ گئے ۔ اس کے برعکس جو وسائل اور مہارت کی کمی کے سبب موجوں کے تھپیڑے کھا رہے تھے وہ بالاخر سمندر کی تہوں سے کامیاب و کامران بن کر برآمد ہوئے ۔

 
غبارِ رہ گزر ہیں ، کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو ، اکسیر گر نکلے

معانی: غبارِ رہ گزر: راستے کی مٹی، خاک یعنی یونانی ۔ کیمیا: زر سازی، خاص دوا جو دھات کی ہیَت کو بدل دیتی ہے ۔ جبینیں خاک پر رکھنے والے: اللہ کے حضور سجدے کرنے والے یعنی ترک مسلمان ۔ اکسیر گر: کیمیا بنانے والے
مطلب: جن لوگوں کو اپنی سائنسی اور مادی ترقی پر ناز تھا جیسے آج امریکہ کو ہے ان کو شکست کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا اور وہ ترک جو زمین پر عاجزی و انکساری کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے تھے وہ دشمن کے بالمقابل قد آور ثابت ہوئے اور ان کا غرور خاک میں ملا گیا ۔

 
ہمارا نرم رَو قاصد پیامِ زندگی لایا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے

معانی: نرم رو قاصد: آہستہ چلنے والا پیامی ۔ پیامِ زندگی لایا: مسلمانوں کی بیداری کا باعث بنا ۔ خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں : ایسی افواج جن کے پاس بے پناہ وسائل ہوں ۔ بے خبر نکلے: یعنی وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بے خبر رہے ۔
مطلب: ہمارا آہستہ چلنے والا پیامی زندگی یعنی نئی دنیا کا پیغام لے کر آیا جبکہ جن کے پاس وسائل کے انبار تھے وہ بالاخر بے خبر ہی رہے ۔

 
حرم رُسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے
جوانانِ تتاری کس قدر صاحبِ نظر نکلے

معانی: پیرِ حرم: یعنی حجاز کا گورنر شریف مکہ جس نے غداری کی ۔ کم نگاہی: انجام کا خیال نہ کرنے کی حرکت ۔ جوانانِ تتاری: ترکی فوج کے جوان ۔ صاحبِ نظر: اہل نظر، بصیرت والے ۔
مطلب: اس جنگ کے دوران شریف مکہ نے ترکوں کے ساتھ غداری کی جس کے نتیجے میں وہ بدنام و رسوا ہوا جب کہ ترک جوانوں نے عالم اسلام میں بھی سرخروئی حاصل کی ۔

 
زمیں سے نوریانِ آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر، پائیندہ تر، تابندہ تر نکلے

معانی: نوریانِ آسماں پرواز: آسمانوں پر اڑنے والے فرشتے ۔ یہ خاکی: یہ مٹی کے بنے ہوئے انسان، یعنی ترک ۔ زندہ تر، زیادہ جاندار، قوی ۔ پائندہ تر: زیادہ ثابت قدم ۔ تابندہ تر: زیادہ روشن ۔
مطلب: اقبال نے یہاں اس واقعہ کی نشاندہی کی ہے کہ فرشتے بھی ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے تھے کہ یہ ترک تو زیادہ زندہ دل، زیادہ عزم محکم رکھنے والے اور زیادہ روشن دماغ ثابت ہوئے ۔

 
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے

معانی: صورتِ خورشید: سورج کی طرح ۔
مطلب: فی الواقع اہل ایمان دنیا میں اسی طرح سے زندگی کا سفر طے کرتے ہیں جس طرح آسمان پر سورج کہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے تو مغرب میں ڈوب جاتا ہے اور مغرب میں طلوع ہوتا ہے تو مشرق میں غروب ہو جاتا ہے ۔

 
یقیں افراد کا سرمایہَ تعمیرِ ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیر ملت ہے

معانی: سرمایہ َ تعمیر ملت: پوری قوم کی سربلندی اور ترقی کا باعث ۔ یہی قوت: ہر فرد کا یقینِ محکم ۔ صورت گر: یعنی بنانے والی ۔
مطلب: کسی قوم کے افراد میں یقین کی دولت ہی اس قوم کا سرمایہ ہوتی ہے یہی قوت ہے جس سے ملت کی تعمیر و تنظیم ہوتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ یقین کامل کے بغیر کسی قوم کی تعمیر و عروج ممکن نہیں ۔

 
تو رازِ کُن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا

معانی: رازِ کن فکاں : کن فکاں یعنی اس کائنات کا بھید، حقیقت ۔ خودی: اپنی چھپی ہوئی شخصیت ۔ ترجماں : توحیدِ خدا وندی سے آگاہ ہو کر دوسروں کو بتانے والا ۔
مطلب: اے مرد مسلماں ! تیری حیثیت اس عالم رنگ و بو میں قدرت کے ایک راز کی سی ہے ۔ تیرے لیے یہ امر لازم ہے کہ اپنی حقیقت و تشخص سے آگہی حاصل کر لے اور خدائے ذوالجلال کے احکامات کی ترجمانی کرتے ہوئے خودی کی حکمت سے آشنائی حاصل کر لے ۔

 
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا

معانی: ہوس: لالچ ۔ ٹکڑ ے ٹکڑے کرنا: قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دینا ۔ نوعِ انساں : مراد تمام انسان، انسانوں کی جماعت ۔ اخوت کا بیاں ہو جا: بھائی چارے کا درس دینے والا بن جا ۔ محبت کی زباں : باہمی اتفاق و محبت کا پیغام ۔
مطلب: اس وقت کیفیت یہ ہے کہ لالچ اور خواہشاتِ بد نے انسان کو ذاتوں ، قبیلوں اور دیگر گروہوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے ۔ تجھ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ بھائی چارے اور محبت کے رشتوں میں پرو کر ایک بار پھر انسانی برادری کو گروہی تقسیم سے نجات دلائے ۔ اور ان میں اتفاق و اتحاد کی ایسی فضا قائم کر دے کہ وہ ہر طرح کی نفرتوں اور رقابتوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ایک ہو جائے ۔

 
یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
تو اے شرمندہَ ساحل اُچھل کر بیکراں ہو جا

معانی: یہ ہندی ۔ ۔ ۔ تورانی: مراد مختلف قوموں میں بٹے ہونا ۔ بے کراں ہو جا: وسیع یعنی علاقائی حدود سے آزاد ہو کر پوری ملت اور انسانیت کی بات کرنے والا بن جا ۔
مطلب: اس وقت صورت یہ ہے کہ یہ ہندوستانی ہے وہ خراسانی ہے یہ افغانی ہے وہ تورانی غرض لوگ مختلف فرقوں اور ذاتوں میں بٹے ہوئے ہیں حالانکہ ان کی مثال ایک سمندر کی موجوں کی طرح ہے جو بے شک الگ الگ اپنا عمل جاری رکھتی ہے لیکن ایک نقطہ پر پہنچ کر آپس میں مربوط ہو جاتی ہیں اور کسی طور پر ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتیں کہ اسی میں ان کی عافیت ہے ۔

 
غبار آلودہَ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغِ حرم اُڑنے سے پہلے پُر فشاں ہو جا

معانی: غبار آلودہَ رنگ و نسب: تنگ نظری کی مٹی میں اٹا ہوا ۔ بال و پر تیرے: تیری قوتیں اور صلاحیتیں ۔ مرغِ حرم: یعنی مسلمان ۔ اڑنا: یعنی ارتقا کی فضا میں اڑنے کا عمل ۔ پرُفشاں ہونا: پر پھڑپھڑانا تا کہ مٹی اور گرد جھڑ جائے ۔
مطلب: اے مردِ مومن! تو خود اس نوع کے امتیازات میں الجھا ہوا ہے حالانکہ تیرا تعلق حرم کعبہ سے ہے جو اتحاد و یگانگت کی علامت ہے تیرے لیے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد اور عمل ناگزیر ہے تا ہم اس کے لیے ضروری ہے کہ گروہی سیاست اور نفاق کی پالیسی کو ختم کر دے ۔

 
خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سِّر زندگانی ہے
نکل کر حلقہَ شام و سحر سے جاوداں ہو جا

معانی: حلقہَ شام و سحر: مراد ہر قسم کے تعصبات ۔ جاوداں : ہمیشہ کی زندگی پانے والا، بقا کا مالک ۔
مطلب: اے غفلت شعار اگر تو اپنی حیثیت ہمیشہ کے لیے مستحکم کرنے کا خواہاں ہے تو پھر صبح و شام یعنی تعصبات کے مخمصوں سے نکل کر اپنی خودی میں ڈوب جا کہ یہ حقیقی زندگی کا راز ہے ۔

 
مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر
شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا

معانی: مصافِ زندگی: زندگی کا میدانِ جنگ، یعنی زندگی کی تگ و دو اور کشمکش ۔ سیرتِ فولاد: فولاد کی سی خصلت، خوبی، مصیبتوں میں بھی ثابت قدم رہنے کی عادت ۔ شبستانِ محبت: مراد نیا بھر کے مسلمانوں کی بزم محبت ۔ حریر و پرنیاں : ریشم کی دو قس میں ، مراد نرم ۔
مطلب: عملی جدوجہد کے مابین جہاں حریفوں سے معرکے درپیش ہوں وہاں تیرا وجود فولاد کی طرح سخت ہونا چاہیے اور جہاں اپنوں میں ہو وہاں تجھے محبت و شفقت سے پیش آنا چاہیے ۔ ایسے مقامات پر نرم روی سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

 
گزر جا بن کے سیلِ تُند رَو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا

معانی: سیلِ تند رو: پانی کا تیز چلنے والا طوفان ۔ کوہ وبیاباں سے: پہاڑ اور اجاڑ یعنی مصیبتوں ، تکلیفوں اور اسلام کے دشمنوں سے ٹکراتے ہوئے ۔ گلستاں : باغ، یعنی مسلمانوں کی محفل ۔ جوئے نغمہ خواں : گاتی ہوئی ندی، مراد فائدہ پہنچانے والا ۔
مطلب: جب پہاڑوں اور صحراؤں کو عبور کرنا ہو تو سیلاب کی سی تندی و تیزی اختیار کر اور راہ میں کوئی گلستاں آ جائے تو پھر اسی ندی کی طرح رواں رہ جو نغمے گاتی ہوئی بہتی چلی جاتی ہے ۔ یعنی اپنوں سے محبت و شفقت اختیار کر اور دشمنوں سے سختی ۔

 
ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی

معانی: سازِ فطرت: قدرت کا باجا، سارنگی ۔ نوا: لے، سر ۔
مطلب: اے مرد مسلماں ! اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ تیرا علم اور تیرا جذبہ محبت دونوں بیکراں ہیں یعنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں اور مظاہر کائنات میں بھی تیرا وجود سب سے اعلیٰ اور بلند ہے ۔

 
ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہر یاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے

معانی: صیدِ زبوں : برے حالوں والا شکار ۔ شہریاری: بادشاہت، ایک فرد کی حکومت ۔ قیامت ہے: کتنے دکھ کی بات ہے ۔ شکاری: ظلم و ستم کرنے والا ۔
مطلب: اقبال یہاں طبقاتی صورت حال کے حوالے سے کہتے ہیں کہ دنیا ترقی کر کے کہیں سے کہیں جا چکی ہے لیکن آج کا ایک عام انسان ملوکیت اور آمریت کے روبرو انتہائی ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھا جار ہا ہے ۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ انسان خود ہی آج بھی انسان کا استحصال کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔

 
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

معانی: خیرہ کرنا: آنکھیں چندھیا دینا ۔ چمک: ظاہری ٹپ ٹاپ ۔ تہذیبِ حاضر: موجود دور کا تمدن جس پر یورپی تہذیب کی چھاپ ہے ۔ صناعی: کاریگری ۔ جھوٹے رنگ: وہ نگینے جو اصلی نہ ہوں ۔ ریزہ کاری: چھوٹے ریزوں کو جوڑ کر نگینہ بنانے کا کام ۔
مطلب:ہر چند کہ عصر حاضر کی تہذیب بظاہر چمک دمک اور تزئین و آرائش کے اعتبار سے نگاہوں کو چندھا دیتی ہے اس کے باوجود بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتاہے کہ مصنوعی تہذیب جھوٹے موتیوں کی مانند ہے جو چمک تو دیتے ہیں لیکن قدر و قیمت کے اعتبار سے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔

 
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کے پنجہَ خونیں میں تیغِ کار زاری ہے

معانی: خردمندان: جمع خرد مند، دانا، فلسفی ۔ پنجہَ خونیں : خون سے لتھڑا ہوا ہاتھ ۔ تیغِ کارزاری: جنگ کی تلوار ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ وہ حکمت و دانش جس پر مغربی دنیا کے فلسفیوں اور دانشوروں کو ناز رہا ہے دیکھا جائے تو ایک ایسی تلوار کی مانند ہے جس سے اپنی ہوس کی تکمیل کے لیے خون بہانے کا کام لیا جاتا ہے ۔ یعنی اس حکمت و دانش کو محض اپنے ذاتی مفاد اور کمزور قوموں کے استحصال کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے ۔

 
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بِنا سرمایہ داری ہے

معانی:تدبر: غور و فکر، سوچ بچار کرنے کی حالت ۔ فسوں کاری: جادوگری ۔ بِنا: بنیاد ۔ سرمایہ داری: بہت زیادہ مالدار، دولت مند ہونا ۔
مطلب: یہ جان لینا چاہیے کہ جس نظام کی بنیاد سرمایہ داری پر مبنی ہے اسے فکر و تدبیر مستحکم نہیں کر سکتے کہ اس نوع کے تمدن زیادہ دیر پا ثابت نہیں ہوتا خواہ اس کو کتنا ہی استحکام بخشنے کی کوشش کی جائے ۔

 
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

معانی: عمل: جدوجہد، انسانیت کی خیر خواہی کے لیے کام کرنا ۔ نوری: نور سے بنا ہوا، فرشتہ ۔ ناری: آگ سے بنا ہوا ، شیطان، یعنی برا ۔
مطلب: امر واقعہ یہ ہے کہ یہ صرف عمل اور جدوجہد ہی ہے جو زندگی کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ انہی کے سبب انسانی زندگی جنت بھی بن سکتی ہے اور عمل درست نہ ہو تو وہ جہنم کا عذاب بھی بن سکتا ہے ۔ اس لیے پیدائشی سطح پر انسان نہ تو جنتی ہے نا دوزخی بلکہ اس کے اچھے اعمال اور برے اعمال ہی دراصل دنیا اور آخرت کی بھلائی اور برائی کے ذمہ دار ہیں ۔

 
خروش آموزِ بلبل ہو، گرہ غنچے کی وا کر دے
کہ تو اس گلستاں کے واسطے بادِ بہاری ہے

معانی: خروش آموزِ بلبل: بلبل یعنی مسلمانوں کو باہمی اتفاق کی باتیں سکھانے والا ۔ گرہ غنچے کی وا کر دے: کلی کی گانٹھ کو کھول دے یعنی مسلمانوں میں باہمی چپقلس دور کر دے ۔
مطلب: اے مسلمان دانشور! یہ قدرت نے تجھ میں ہی صلاحیت پیدا کی ہے کہ ملت مسلمہ کی صحیح رہنمائی کر سکے اور اس کے پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کرے تا کہ وہ کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہو ۔

 
پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی
ز میں جولاں گہِ اطلس قبایانِ تتاری ہے

معانی: جولانگہ: میدان جہاں گھوڑا دوڑاتے ہیں ۔ اطلس قبایانِ تتاری: چمکیلا لباس پہننے والے ترک، مراد مسلمان جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔
مطلب:زیر تشریح شعر میں اقبال ایک بار پھر یہ خوش خبری سناتے ہیں کہ پھر ایک بار ایشیا کے باشندے صورتحال کو سمجھنے لگے ہیں اور اس کے نتیجے ہیں کہ باہمی اتحاد و محبت ہی پرسکون اور خوشحال زندگی کے لیے ناگزیر ہیں یوں لگتا ہے جیسے زمین پر ان ترکوں کے وہ گھوڑے دوڑ رہے ہیں جنھوں نے اطلسی لباس زیب تن کیا ہوا ہے ۔

 
بیا پیدا خریدار است جانِ ناتوانے را
پس از مدّت گزار اُفتاد بر ما کاروانے را

مطلب: یہ شعر معمولی سی ترمیم کے ساتھ نظیری کا ہے ۔ جس میں کہا گیا ہے آ کہ کمزور جان کا خریدار پیدا ہو گیا ہے ۔ ایک مدت کے بعد ایک قافلہ ہماری طرف سے گزر رہا ہے ۔ مراد یہ کہ ملت کی بہبودی کے دن نزدیک آ گئے ہیں اور افراد قوم اب متحد و متفق ہو کر اپنی منزل مقصود کی جانب چل پڑے ہیں ۔

 
بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد
بہار آمد، نگار آمد، نگار آمد، قرار آمد

مطلب:اے ساقی آ جا کہ شاخوں پر سے پریشان حال پرندے کی چہکار سنائی دی ہے ۔ یعنی بہار آ گئی ہے ، محبوب آ گیا اور جب محبوب آ گیا تو دل کا قرار آ گیا ۔

 
کشید ابرِ بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا
صدائے آبشاراں از فرازِ کوہسار آمد

مطلب: موسمِ بہار کے بادل نے وادی اور صحرا میں خیمے لگا دیے ہیں اور پہاڑ پر سے آبشاروں کے گرنے کی آواز آنے لگی ہے ۔

 
سرت گردم تو ہم قانونِ پیشیں ساز دہ ساقی
کہ خیلِ نغمہ پردازان قطار اندر قطار آمد

مطلب: اے ساقی تیرے قربان جاؤں تو بھی ذرا پہلے والا ساز چھیڑ دے کہ گیت گانے، چہچہانے والے قطار در قطار آ گئے ہیں ۔

 
کنار از زاہداں بر گیر و بیباکانہ ساغر کش
پس از مدّت ازیں شاخِ کہن بانگِ ہزار آمد

معانی: زاہدوں ، پرہیزگاروں سے کنارہ کشی کر لے جو شراب ناب کے مخالف ہیں اور بے خوف ہو کر پینا پلانا شروع کر دے کیونکہ ایک مدت کے بعد اس پرانی ٹہنی یعنی ملت اسلامیہ سے بلبل کی آواز سنائی دی ہے ۔

 
بہ مشتاقاں حدیثِ خواجہَ بدر و حنین آور
تصرُّف ہائے پنہانش بچشمِ آشکار آمد

مطلب: اے ساقیا آ! اور بد رو حنین کے آقا آنحضرت ﷺ کا ذکرِ خیر ان کے عشاق کو سنا ۔ آنحضرت نے جو راز ہائے دروں محفوظ رکھے تھے وہ اب مجھ پر ظاہر ہو گئے ہیں ۔

 
دگر شاخِ خلیل از خونِ ما نمناک می گردد
ببازارِ محبت نقدِ ما کامل عیار آمد

مطلب: اب پھر شاخِ خلیل حضرت ابراہیم یعنی ملت اسلام ہمارے خون سے تروتازہ و سرسبز ہو رہی ہے یعنی محبت کی منڈی میں ہماری نقدی خالص اور کھری قرار پائی ہے ۔

 
سرِ خاک شہیدے برگہائے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہالِ ملتِ ما سازگار آمد

مطلب: میں اس شہید کی قبر پر لالہ کی پتیاں بکھیرتا ہوں جس کا خون ہماری ملت کے پودے کے لیے مفید ثابت ہوا ۔ یہاں اقبال کا اشارہ یقیناً واقعات کربلا اور شہادت عظمیٰ کی جانب ہے ۔

 
بیا تا گل بیفشانیم و مے در ساغر اندازیم
فلک را سقف بشگافیم و طرحِ دیگر اندازیم

مطلب: آ کہ ہم پھول بکھیریں اور شراب جام میں انڈیلیں ، اس طرح آسمان کی چھت پھاڑ ڈالیں اور ایک نئی زندگی کی بنیاد رکھیں ۔ اس شعر میں مسلمانوں کو محبت و اتفاق کا درس دیا ہے ۔