Please wait..

محراب گل افغان کے افکار
(۸)

 
زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں ترے پر
شَپرک کہتی ہے تجھ کو کورِ چشم و بے ہنر

معانی: زاغ: کوا ۔ بدنما: برے دکھائی دینے والا:شپرک: چمگادڑ،جس کو دن میں نہیں رات میں نظر آتا ہے ۔ کور چشم: اندھا پن ۔ بے ہنر: بے فن ۔
مطلب: کوا جو خود خوبصورت نہیں ہے شہباز کو کہہ رہا ہے کہ تیرے پر میری نظر کو اچھے نہیں ، برے لگتے ہیں ۔ اس لیے تو خوبصورت نہیں ہے ۔ چمگادڑ جسے خود رات کے وقت نظر نہیں آتا اس غلط فہمی میں ہے کہ میں بینا ہوں اور شاہین نابینا ہے ۔

 
لیکن اے شہباز یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر

معانی :فضائے نیلگوں : آسمان کی نیلی فضا ۔ پیچ و خم: رموز و اسرار ۔
مطلب: شاعر کہتا ہے کہ یہ پرندے جن کی حیثیت شہبازوں ، عقابوں اور شاہینوں کے مقابل صحرا کے پرندوں میں ایسی ہے جیسی کہ اونچے لوگوں کے مقابلے میں کم درجہ کے لوگوں کی ہوتی ہے ۔ ان کو کیا خبر کہ بلند پروازی اور تیز بینی کیا چیز ہوتی ہے ۔

 
ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
رُوح ہے جس کی دمِ پرواز سر تا پا نظر

معانی: طائر : پرندہ ۔ احوال و مقام: حالات و مرتبہ ۔
مطلب: انہیں کیا خبر کہ اس نیلے آسمان کی بلندیوں پر اڑنے والے شاہین کی حالات اور مراتب کیا ہے ۔ یہ تو زمین سے چند گز اوپر تک کے فاصلے پر کبھی گئے ہی نہیں ان میں ایسی طاقت اور صلاحیت ہی نہیں اس لیے ان کی شاہین کے متعلق رائے بے حقیقت ہے ۔ فضائے نیلگوں کے رموز و اسرار اور پیچ و خم سے اور وہاں پرواز کی لذت سے یہ بے خبر ہیں ۔ انہیں بلند پرواز شہباز کے حالات و مراتب کا کیا علم ہے جس کی جان بلند پرواز مین بھی نظر آسمان پر ہوتی ہے ۔ جس کو وہ اندھا کہتے ہیں وہ ایسا بینا ہے کہ بہت بلندی سے بھی زمین پر کے ذرات کو دیکھ لیتا ہے اور اپنے شکار پر اس طرح جھپٹتا ہے جس جھپٹ کی لذت کی صحرا کے ا ن کمینے پرندوں کو خبر تک نہیں ۔ اس لیے اے افغان قوم کے فرند خود کو پہچان اور کوا ، چیل، کرگس ، چمگادڑ نہ بن شاہین بن اور ان کمینے جانوروں پر جھپٹ ۔