Please wait..

ایک شام
(دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے)

 
خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی

معانی: یہ نظم اقبال نے جرمنی میں ان دنوں لکھی جب وہ 1907ء میں وہاں فلسفے کے مضمون میں پی ایچ ڈی کرنے گئے تھے ۔ میونخ سے وہ ہائیڈل برگ چند روز کے لیے یوں گئے کہ وہاں کے کتب خانے سے استفادہ کر سکیں ۔ دریائے نیکر بھی ہائیڈل برگ کے گردونواح میں بہتا ہے ۔ اسی دریا کے کنارے پر بیٹھ کر اقبال نے یہ اشعار کہے ۔
مطلب: فرماتے ہیں کہ عجب منظر ہے ۔ چاند کی چاندنی خاموش ہے اور دریا کے کنارے جو درخت ایستادہ ہیں ان کی شاخیں بھی ساکن و ساکت ہیں ۔

 
وادی کے نوا فروش خاموش
کہسار کے سبز پوش خاموش

مطلب: وادی کے تمام چرند پرند اور سامنے پہاڑوں پر اگے ہوئے تمام سرسبز و شاداب پودے بھی اسی طرح خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں ۔

 
فطرت بے ہوش ہو گئی ہے
آغوش میں شب کے سو گئی ہے

مطلب: فطرت شاید مدہوش ہو کر رات کی گود میں سورہی ہے ۔

 
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر کا خرام بھی سکوں ہے

مطلب: اس خاموشی کا جادو کچھ ایسے چل رہا ہے کہ دریائے نیکر کا بہتا ہوا رواں دواں پانی بھی خاموشی نظر آتا ہے ۔

 
تاروں کا خموش کارواں ہے
یہ قافلہ بے درا رواں ہے

مطلب: آسمان پر ستاروں کا قافلہ انتہائی خامشی کے ساتھ رواں دواں ہے اور کسی شور و شغل کے بغیر اپنی منزل کی جانب گامزن ہے ۔

 
خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا
قدرت ہے مراقبے میں گویا

مطلب: اس وادی کے پہاڑ، صحرا اور دریا اس طرح سے خاموش نظر آتے ہیں کہ ان کی خاموشی سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فطرت نہایت انہماک کے ساتھ دھیان اور غور و فکر میں مصروف ہے ۔

 
اے دل! تو بھی خموش ہو جا
آغوش میں غم کو لے کے سو جا

مطلب: اس صورتحال میں اقبال اپنے دل کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ یہاں کا جملہ عناصر کی طرح تو بھی خاموش ہو جا اور غم کی آغوش میں سو جا ۔