(۵)
کیا عشق ایک زندگیِ مستعار کا کیا عشق پائیدار سے ناپائیدار کا
معانی: مستعار: مانگی ہوئی ۔ پائیدار: مضبوط ۔ ناپائیدار: کمزور ۔
مطلب: اس غزل کے پہلے شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ حیات انسانی عارضی اور فنا ہونے والی ہے اسے اس ذات مطلق سے عشق کا حوصلہ کیسے ہو سکتا ہے جو ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
معانی: اجل: موت ۔ تپش: گرمی ۔
مطلب: وہ عشق جو فنا کے ایک تھپیڑے کا بھی متحمل نہ ہو سکے اس میں ہجر کی تپش اور انتظار میں جو اضطرابی کیفیت ہوتی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔
میری بساط کیا ہے تب و تاب یک نفس شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
معانی: بساط: حیثیت ۔ تب و تاب یک نفس: ایک دم کی چمک دمک ۔ بے محل: بے فائدہ ۔ شرار: چنگاری ۔
مطلب: میں اپنے وجود میں ایک ایسے ستارے کے مانند ہوں جو لمحے بھر کے لیے چمک دکھا کر غائب ہو جاتا ہے ۔ مجھ سا ایک ادنیٰ انسان اس ذات مطلق سے کیسے الجھنے کا حوصلہ کر سکتا ہے جو پوری کائنات پر ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے ۔
کر پہلے مجھ کو زندگیِ جاوداں عطا پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا
معانی: زندگی جاوداں : ہمیشہ کی زندگی ۔ ذوق و شوق: شوق کے کارنامے ۔ بے قرار: بے چین ۔
مطلب: خداوندا! اگر میرا حوصلہ اور شوق وارفتگی دیکھنا ہے تو ایسی طویل عمر عطا کر جس میں فنا کا تصور بھی موجود نہ ہو ۔
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو یارب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
معانی: کھٹک: چبھن ۔ لازوال: جس کو زوال نہ ہو، ہمیشہ ۔ درد: تکلیف ۔
مطلب: اے میرے معبود میرے دل کو وہ خلش عطا کر جو ہمیشہ برقرار رہ سکے اور ایسا درد دے جس کی کسک لازوال ہو ۔
رباعی
دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر حریمِ کبریا سے آشنا کر
معانی: مرکز مہر وفا: محبت اور وفاداری کے مرکز ۔ حریم کبریا: بڑے عبادت خانے سے واقفیت دے ۔
مطلب: اس رباعی میں اقبال دعائیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے خداوند عزوجل سے درخواست گزار ہیں کہ مولا! انسانی قلوب کو اپنی محبت سے لبریز کر دے اور انہیں راہ وفا پر گامزن کر دے ۔
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
معانی: نان جویں : جو کی روٹی ۔ بازوئے حیدر: حضرت علی کی قوت ۔
مطلب: وہ مفلس و نادار اور بے سروسامان لوگ جن کے وسائل اتنے محدود ہیں کہ پیٹ بھرنے کے لیے جو کی روٹی پر ہی اکتفا کرتے ہیں تو یہی سہی تاہم ان کے بازووَں کو قوت حیدری سے بھی نواز دے ۔ اقبال نے اپنے کلام میں بے شمار مقامات پر حضرت علی مرتضیٰ کی جرات و ہمت اور استغنائی کا بار بار ذکر کیا ہے ۔ وہ ان کے مثالی کردار کے بڑی شدت کے ساتھ قائل تھے ۔