کلی
جب دکھاتی ہے سحر عارضِ رنگیں اپنا کھول دیتی ہے کلی سینہِ زریں اپنا
معانی: سحر: صبح ۔ عارض: گال، چہرہ ۔ سینہَ زرین: سنہری سینہ ۔
مطلب: اس نظم میں کہا گیا ہے کہ جس لمحے سحر اپنا عارض رنگیں دکھاتی ہے یعنی شب کے خاتمے پر صبح کا چمکیلا روپ ظاہر ہوتا ہے ۔ تو اس روپ کو جذب کرنے کے لیے غنچہ چٹکتا ہے اور پھول بن جاتا ہے ۔
جلوہ آشام ہے یہ صبح کے میخانے میں زندگی اس کی ہے خورشید کے پیمانے میں
معانی: جلوہ آشام: جلوے کی خواہش مند ۔ خورشید: سورج ۔
مطلب: دیکھا جائے تو یہ غنچہ صبح کے وقت حقیقی معنوں میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور طلوع ہوتے ہوئے آفتاب کی کرنوں سے اپنا دامن بھر لیتا ہے ۔
سامنے مہر کے دل چیر کے رکھ دیتی ہے کس قدر سینہ شگافی کے مزے لیتی ہے
معانی: دل چیر کے رکھ دینا: مراد کلی کا کھلنا ۔ سینہ شگافی: سینے کا پھٹنا مراد کھلنے کا عمل ۔
مطلب: یہ غنچہ سورج کے روبرو اپنا دل چیر کے اس طرح سے رکھ دیتا ہے کہ عملاً سورج کی کرنوں کے طفیل وہ سینہ شگافی کا لطف بھی اٹھاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ایک کلی علی الصبح طلوع آفتاب کے لمحات میں چٹک کر سورج کی کرنوں سے حقیقی معنوں میں یوں لطف اندوز ہوتی ہے کہ انبساط و مسرت سے پھول بن جاتی ہے ۔
تیرے جلوہ کا نشیمن ہو مرے سینے میں عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں
معانی: نشیمن: گھونسلا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال سورج کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کبھی تو بھی اپنی حقیقت سے مجھے آگاہ کر کہ میری بیتاب نظریں تیرے نظارے کو تڑپتی رہتی ہیں ۔ میری آرزو ہے کہ تو میرے سینے کے اندر جلوہ افروز ہو جائے اور میرے دل کے آئینے میں تیرا عکس موجزن ہو جائے ۔
زندگی ہو ترا نظارہ مرے دل کے لیے روشنی ہو تری گہوارہ مرے دل کے لیے
معانی: زندگی ہونا: مراد قوت، طاقت کا باعث ہونا ۔ گہوارہ: پنگوڑا ۔
مطلب: تیرا نظارہ میرے دل کے لیے روشنی کی مانند ہو اور یہی روشنی میرے دل کے لیے گہوارہ بن جائے ۔
ذرہ ذرہ ہو مرا پھر طرب اندوزِ حیات ہو عیاں جوہرِ اندیشہ میں پھر سوزِ حیات
معانی: طرب اندوزِ حیات: زندگی کی خوشیاں حاصل کرنے والا ۔ جوہر اندیشہ: غو ر و فکر کی اصل، جڑ ۔ سوزِ حیات: زندگی کی تپش ۔
مطلب: اس صورت میں میری زندگی مسرت و انبساط کی حامل ہو سکے گی تا کہ میری فکر اور سوچ کے ذریعے زندگی کا سوز عطا ہو ۔
اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں صفتِ غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں
معانی: صفت غنچہ: کلی کی طرح ۔ ہم آغوش: مراد ساتھ مل کر رہنے والا ۔
مطلب: تو بے شک مجھ سے دور چمکتا ہے پھر بھی میں تیرا نظارہ کرنے کا خواہاں ہوں اور غنچہ کی مانند تیری روشنی سے استفادہ کر سکوں ۔
جانِ مضطر کی حقیقت کو نمایاں کر دوں دل کے پوشیدہ خیالوں کو بھی عریاں کر دوں
معانی: جانِ مضطر: بے چین روح ۔ حقیقت: اصلیت، کیفیت ۔ عریاں : ننگے، مراد ظاہر ۔
مطلب: اس صورت میں اپنی مضطرب زندگی کے حقائق دوسروں پر نمایاں کر دوں گا اور جو خیالات میرے دل میں پوشیدہ ہیں وہ بھی سامنے آ جائیں گے ۔