جنوں
زجاج گر کی دکاں شاعری و مُلّائی ستم ہے خوار پھرے دشت و در میں دیوانہ
معانی: جنوں : سودا لیکن خوش سودا، عشق صادق کی انتہا ۔ زجاج گر: شیشہ بنانے والا ۔ دشت و در: جنگل اور بیابان ۔ دیوانہ: سودائی، خوار پھرنا ۔ ملائی: ملا ہونا ۔
مطلب: آج کل کی شاعری اور آج کل کی ملائی کی مثال ایک شیشہ گر کی دکان کی طرح ہے جس میں ظاہری چمک ہوتی ہے لیکن مضبوطی نہیں ہوتی ۔ اسے جب چاہیں ریزہ ریزہ کیا جا سکتا ہے لیکن ظلم یہ ہے کہ وہ دیوانے جو ایسی دکانوں کو توڑ سکتے ہیں وہ جنگل اور بیابانوں میں ذلیل اور خوار پھر رہے ہیں ۔ مراد ہے کہ ایسے اہل لوگ جو واقعی ملا بننے کے اور شاعر بننے کے قابل ہوں ان کی تو کوئی قدر نہیں اور نہ ہی ان میں وہ ہمت اور جنون ہے کہ وہ ان شیشہ گروں جھوٹے شاعروں اور ملاؤں کی دکانوں کو ریزہ ریزہ کر دیں ۔
کسے خبر کہ جنوں میں کمال اور بھی ہیں کریں اگر اسے کوہ و کمر سے بیگانہ
معانی: کمال: اعلیٰ وصف ۔ کوہ و کمر: پہاڑ اور گھاٹی ۔ بیگانہ: ناواقف ۔
مطلب: بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ جنون (خوش سودا یا انتہائی عشق) میں علاوہ مجنوں کے اور بھی کام ہیں ۔ صاحب جنون مکہ پہاڑوں اور گھاٹیوں یا جنگل اور بیابان سے ناواقف یا الگ بھی کر دیا جائے تو اسکے کے او ر کام بھی ہیں جیسا کہ ایک کام پہلے شعر میں ملائی اور شاعری کی شیشہ گری کی دکانیں توڑنے کا ہے اور دوسرا کام اس سے اگلے شعر میں بتایا گیا ہے ۔
ہجومِ مدرسہ بھی سازگار ہے اس کو کہ اس کے واسطے لازم نہیں ہے ویرانہ
معانی: ہجوم مدرسہ: درس گاہوں کی بھیڑ بھاڑ ۔ سازگار: موافق، واسطے ، ویرانہ: بیابان
مطلب: شاعری اور ملائی کی طرح ہمارے جدید مدارس بھی علم کی جگہ کے بجائے نام نہاد طالب علموں کی بھیڑ کی جگہ بن چکے ہیں ۔ شیشہ گروں کی دکانوں کی طرح ان مدرسوں کو ویران کرنا بھی ضروری ہے ۔ اس لیے صاحب جنوں کا یہ کام بھی ہے کہ وہ بیابانوں کی بجائے ان مدرسوں کا رخ کرے اور ان کو برباد کر کے ان کی جگہ ایسے مدارس قائم کرے جہاں صحیح طالب علم اور انسان پیدا ہو سکیں ۔ صاحب جنوں سے دراصل وہ لوگ مراد ہیں جو جنوں کی حد تک اپنے مقصد کو پورا کرنے کی لگن رکھتے ہوں ۔