نفسیاتِ غلامی
شاعر بھی ہیں پیدا علما بھی، حکما بھی خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
معانی: شاعر بھی ہیں پیدا: شاعر بھی موجود ہیں ۔ حکما: حکیم کی جمع، شعو ر والے ۔
مطلب : علامہ نے اس نظم میں غلاموں کی اس ذہنیت کی بات کی ہے جو غلامی کے دور کی وجہ سے ان میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ یہاں ان کے نزدیک برصغیر کے لوگوں کی وہ غلامی ہے جو انگریز ی حکومت کے زمانے میں تھی ۔ اپنے پہلے شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ غلامی کے زمانے میں غلام قوموں میں شاعر بھی پیدا ہوتے ہیں ا ور علما اور مفکر بھی لیکن ان کی شاعری ان کے علم اور ان کی حکمت کا مقصودہ وہ نہیں ہوتا جو ان جیسے آزاد قوموں کے لوگوں کا ہوتا ہے ۔ ان کا جو مقصد ہوتا ہے اسے اقبال نے اگلے دو شعروں میں بیان کیا ہے ۔
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک ہر ایک ہے گو شرحِ معانی میں یگانہ
معانی: شرح معانی: معانی کی وضاحت کرنا ۔ یگانہ: بے مثل اور یکتا ۔
مطلب: غلام قوموں میں جیسا کہ پہلے شعر میں کہا گیا ہے شاعر بھی پیدا ہوتے ہیں اور عالم اور حکیم بھی اور ان میں ہر کوئی اپنے علم کی شرح کرنے میں درجہ کمال پر بھی پہنچا ہوا ہوتاہے اور اپنے اپنے میدان میں یکتا اور بے مثل بھی ہوتا ہے ۔
بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رمِ آہو باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ
معانی: رم آہو: ہرنوں کی دوڑ، بزدلی ۔
مطلب: لیکن اللہ کے ان بندوں کا صرف ایک کام ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اپنی شاعری اپنے علم اور اپنی حکمت کے ذریعے اپنی قوم کے شیروں کو ہرنوں کی طرح بزدلی سے بھاگنا سکھا دیں ۔ اور یہ کام وہ اس حد تک سرانجام دیں کہ نہ شیر باقی رہے اور نہ ان کی شیری کی کہانیاں باقی رہیں ۔ سب کو ہرنوں کی طرح کا بزدل بنا دیا جائے ۔ مراد یہ ہے کہ بہادری کا سبق دینے کی بجائے اپنی قوم کے لوگوں کو بزدلی کا درس دیا جائے تا کہ وہ غلامی میں اور زیادہ پختہ ہو جائیں۔
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
معانی: تاویل مسائل: مسئلوں کے اصل معانی کو چھوڑ کر اپنے معانی پیدا کرنا ۔
مطلب: غلام قوموں کے علما، حکما، شاعر اور دوسرے ہنر مند اور فنکار یعنی دینی فنی اور علمی قسم کے مسئلوں کے من گھڑت معنی پیدا کرتے ہیں اور ان غلط معانی کو بہانہ بنا کر اپنی قوم کے غلام لوگوں کو غلامی قبول کرنے پر مزید رضا مند کرتے ہیں اور یہ سب کچھ وہ اپنے مفادات و اغراض کے پیش نظر اور اپنے حکمران آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہیں ۔ علامہ نے اسی رویے اور مزاج کو غلامی کی ذہنیت کہا ہے ۔