مسولینی
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ذوقِ انقلاب ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ملت کا شباب
معانی: ندرت: تازگی، انوکھا پن ۔ فکر و عمل: سوچ اور اور پر عمل ۔ ذوقِ انقلاب: حالات بدل دینے کا شوق ۔ ملت کا شباب: قوم کی جوانی یعنی عسکری قوت ۔
مطلب: 1931ء میں علامہ اقبال جب دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن پہنچے تو ان کو اطالوی سفیر متعینہ بھارت کی وساطت سے مسولینی کا پیغام ملا جس میں انہیں کانفرنس سے فراغت کے بعد روم آ کر کچھ عرصہ قیام کرنے اور وہاں لیکچر دینے کی دعوت دی گئی تھی ۔ اقبال نے یہ دعوت منظور کر لی ۔ روم پہنچ کر انھوں نے روم کے اکابرین کی مجلس میں ایک لیکچر بھی دیا اور مسولینی سے بھی ملاقات کی ۔ ان پر اس ملاقات کا گہرا اثر پڑا ۔ یہاں مسولینی کے بارے میں چند حقائق کا ذکر ناگزیر ہے کہ ان کے بغیر اس نظم کی روح کو سمجھنا مشکل ہے ۔ مسولینی نوجوانی میں اطالوی فوج سے منسلک بھی رہا ۔ وہ ایک طرح سے اٹلی میں فاشزم کی تحریک کا بانی سمجھا جاتا ہے ۔ 1922ء میں وہ اپنے ملک کا مختار کل بن گیا ۔ وہ شعلہ بیاں مقرر تھا ۔ اس نے قوم میں جنگی روح پھونک کر اہل روم کی عظمت رفتہ کو یاد دلا کر ایک عظیم الشان سلطنت کا تصور پیش کیا ۔ دوسری جنگ عظیم میں مسولینی نے ہٹلر کی حمایت کا اعلان کر دیا ۔ بعد میں اتحادیوں کے مقابلے پر اٹلی نے شکست کھائی اور مسولینی کو اقتدار سے علیحدہ کر کے ایک جزیرے میں نظر بند کر دیا گیا جہاں سے ہٹلر کے ہواباز اسے چھڑا کر لے گئے ۔ چنانچہ شمالی اٹلی میں دوبارہ اس کی حکومت قائم ہوئی لیکن حالات اس کے قابو سے باہر ہو چکے تھے جس کے سبب وہ بھیس بدل کر سوءٹزرلینڈ فرار ہونے لگا تو راہ میں پکڑ کر اسے گولی مار دی گئی ۔ 1931ء میں اقبال نے اٹلی کے سفر کے دوران مسولینی کی عظمت کے نظارے جگہ جگہ دیکھے ۔ اس کے علاوہ مختلف مقامات پر انھوں نے فاشسٹ نوجوانوں کے پرجوش جتھے دیکھے ۔ وہ ان کے جوش و خروش سے بے حد متاثر ہوئے ہی نہیں بلکہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسولینی کی قیادت میں اٹلی کی کایا پلٹ ہو گئی ہے ۔ یہی وہ تصورات تھے جن کی بنیاد پر اقبال نے یہ نظم تخلیق کی ۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اقبال قطعی طور پر فاشزم کے حامی نہ تھے بلکہ اسے فرنگی استعمار کے خلاف ردعمل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اس حقیقت سے تو سب ہی آگاہ ہیں کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے ۔
اس نظم کے سات اشعار ہیں ۔ اس شعر میں کہا گیا ہے کہ نظریہ جب زیر عمل آتا ہے تو وہ قوم میں انقلاب کا ذوق پیدا کرتا ہے یہی عمل انفرادیت کا حامل ہوتا ہے ۔ نظریہ اور عمل کے ارتباط کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ قوم میں جوانی کی روح اور جوش پیدا ہو تاکہ وہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہو سکے ۔
ندرتِ فکر و عمل سے معجزاتِ زندگی ندرتِ فکر و عمل سے سنگِ خارہ لعلِ ناب
معانی: سنگِ خارہ لعلِ ناب: سرخ پتھر لعل بن جاتا ہے ۔
مطلب: یہ نظریہ اور عمل کے مابین ارتباط کی انفرادیت ہے جو زندگی کو معجزات سے ہم کنار کرتی ہے اور یہی عمل پتھر کو سل میں منتقل کر دیتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جب کسی قوم کے پاس کوئی ٹھوس نظریہ ہو اور وہ اس پر عمل پذیر ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو تو وہ ایسے انقلاب سے دوچار ہو جاتی ہے جو اپنی قوت و نمو کے سبب اپنے آپ کو بھی بدلتی ہے اور دوسروں کو بھی تبدیلی پر مجبور کر دیتی ہے ۔ ایسی ہی قوم عملی سطح پر ایسے کارنامے انجام دیتی ہے جن کے سبب اس کا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ کی زینت بن جاتا ہے ۔
رومتہ الکبری! دِگرگوں ہو گیا تیرا ضمیر اینکہ می بینم بہ بیدار یست یارب یا بخواب
مطلب: اس شعر میں اقبال اٹلی میں دوران قیام اپنے مشاہدے پر متحیر ہیں کہ ایک قلیل عرصے میں یہ ملک کتنے تغیر سے ہم آہنگ ہوا ہے کہ اس کی موجودہ حالت پر یقین کرنے میں تامل ہوتا ہے اور دیکھنے والا یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ میں حالت خواب میں ہوں یا جاگ رہا ہوں ۔
چشمِ پیرانِ کہن میں زندگانی کا فروغ نوجواں تیرے ہیں سوزِ آرزو سے سینہ تاب
معانی: پیرانِ کہن: بوڑھے لوگ ۔ فروغ: ترقی ۔ سوزِ آرزو: تمنا کا جوش ۔ سینہ تاب: سینہ گرم کرنے والا ۔
مطلب: اب تو کیفیت یہ ہے کہ یہاں کے ضعیف لوگوں کی نظریں بھی اس روشنی سے جگمگا رہی ہیں جو جوان عمری کی مظہر سمجھی جاتی ہے ۔ ان میں ایک ایسی آب و تاب دکھائی دیتی ہے جو قابل رشک ہے اور جہاں تک روم کے نوجوانوں کا تعلق ہے ان کے سینے بلند ولولوں اور خواہشات کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔ ایسا ہمہ گیر تغیر تو زندہ قوموں ہی کا مقدر ہوتا ہے ۔
یہ محبت کی حرارت، یہ تمنا، یہ نمود فصلِ گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیرِ حجاب
معانی: حرارت: گرمی ۔ نمود: آگے بڑھنا ۔ فصلِ گل: پھول کھلنے کا موسم ۔ زیر ِ حجاب: چھپے ہوئے ۔
مطلب: وطن پر مر مٹنے کا جذبہ ! پھر اس جذبے میں حرارت اور جوش و خروش کا مظاہرہ تو ایسے عوامل ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اطالوی قوم کا ہر فرد اپنی منزل کی طرف غیر معمولی جوش و خروش کے ساتھ اسی طرح رواں دواں ہے ۔ جس طرح موسم بہار میں پھول شاخوں سے برآمد ہونے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں ۔ اقبال نے اپنے تاثرات جس خوبصورتی کے ساتھ بیان کیے ہیں ان پر بیساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے ۔
نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے زخمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب
معانی: نغمہ ہائے شوق: شوق کے گیت ۔ معمور: بھری ہوئی ۔ زخمہ ور: ساز بجانے والا ۔ فطرت: قدرت ۔
مطلب: اے اطالیہ! آج تیری فضا جن نعروں سے گونج رہی ہے اس سے اس امر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ تیری خوابیدہ انقلابی فطرت کو جس تحریک کی ضرورت تھی وہ معرض وجود میں آ چکی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اقبال کے نزدیک اس تحریک کی مظہر مسولینی کی ذات کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔
فیض یہ کس کی نظر کا ہے، کرامت کس کی ہے وہ کہ ہے جس کی نگہ مثلِ شعاعِ آفتاب
مطلب: اے اطالیہ! اتنا بتا دے کہ آج تیری فضائیں جن انقلابی نعروں سے زیر و زبر ہو رہی ہیں اور ان میں جو تبدیلی رونما ہوئی ہے وہ کس کا فیض اور کس کی کرامت ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک ایسا شخص ہے جس کی نگاہ سورج کی شعاع کے مانند ہے جہاں تک سورج کی شعاعوں کا تعلق ہے وہ دیکھا جائے تو ساری کائنات کو روشنی فراہم کرتی ہیں ۔ اقبال نے یقینا مسولینی کے لیے ہی سورج کی شعاع کا استعارہ استعمال کیا ہے ۔