رباعیات
(۵)
خرد کی تنگ دامانی سے فریاد تجلی کی فراوانی سے فریاد
معانی: خرد: عقل ۔ تنگ دامانی: جھولی کا تنگ ہونا ۔
مطلب: میں عقل کی جھولی کے تنگ ہونے پر دہائی دے رہا ہوں کہ وہ اس میں خداتعالیٰ کے ان جلووں کو نہیں سمیٹ سکتی جو رنگارنگ صورتوں میں کائنات میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں ۔ صوفیا کے نزدیک کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے اسما اور صفات کا مظہر ہے ۔ ہر ذرہ میں اس کی جلوہ نمائی ہے ۔ دہائی ہے کہ ان سب جلووں کو دیکھنا عقل کے بس کی بات نہیں ہے ۔ یہ عقل کی تنگ نظری کا نتیجہ ہے کہ وہ کائنات میں غیر اللہ کے جلووں کو تو دیکھ لیتی ہے لیکن اللہ کے جلووں کا تماشا نہیں کر سکتی ۔
گوارا ہے اسے نظارہَ غیر نگہ کی نامسلمانی سے فریاد
مطلب: یہ نگاہ کے نامسلمان ہونے کی دلیل ہے اگر عقل کی نگاہ مسلما ن ہوتی تو وہ ہر شے میں خدا کا جلوہ دیکھ لیتی ۔ اور غیر اللہ کے نظارے سے بچتی ۔ ایسی نگاہ سے جو غیر اللہ کو تو دیکھ لے اور اللہ کو نہ دیکھ پائے فریاد ہے کیونکہ ایسی نگاہ کافر کی تو ہو سکتی ہے مسلمان کی نہیں ۔ کافر کائنات کے ظاہری جلووں میں گم رہتا ہے جب کہ مسلمان ان جلووں کے پیچھے ذات باری تعالیٰ کے اسما و صفات کی تجلیات کا نظارہ کرتا ہے اور ان کے ذریعے ذات سے تعلق پیدا کر لیتا ہے
(۶)
کہا اقبال نے شیخِ حرم سے تہِ محرابِ مسجد سو گیا کون
معانی: شیخ حرم: حرم کا شیخ، مسجد کا امام ۔ محراب : مسجد میں مغرب کی سمت کی ایک جگہ جہاں امام کھڑا ہوکر نماز پڑھاتا ہے ۔ تہِ محراب مسجد: مسجد کی محراب کے نیچے ۔
مطلب: اس رباعی میں عہد حاضر کے مسلمانوں کے دو طبقوں کا ذکر ہے ایک کا نمائندہ وہ ہے جو مغربی تہذیب و تمدن کا دلدادہ ہے اور دوسرے کا نمائندہ ملا ہے جو مسجد کی چار دیواری میں رہتا ہے ۔ علامہ نے ان دونوں طبقوں کی برائی کی ہے اور کہا ہے کہ پہلا طبقہ دنیا میں ا س قدر گم ہو گیا ہے کہ اسے دین کی کچھ خبر نہیں اور دوسرا طبقہ دین میں اس قدر الجھ گیا ہے کہ دنیا چھوڑ بیٹھا ہے ۔ اقبال نے جب مسجد کے امام (ملا) سے یہ کہا کہ مسجد کی محراب کے نیچے کون سو گیا ہے ۔ یعنی دنیائے علم سے بیگانہ ہو کر صرف نمازیں پڑھنے اور دین کی باتیں کرنے میں کون لگا ہوا ہے تو اس سوال میں ہی یہ جواب پوشیدہ ہے کہ وہ ملا ہے ۔
ندا مسجد کی دیواروں سے آئی فرنگی بُت کدے میں کھو گیا کون
معانی: فرنگی: انگریز، اہل مغرب ۔ بتکدہ: بتوں کا گھر ۔ کھو گیا: گم ہو گیا ۔
مطلب: یہ سوال سن کر مسجد کی دیواروں سے آواز آئی کہ انگریزوں کے بت کدہ میں یعنی ان کے علوم ، تہذیب ، تمدن، ثقافت وغیرہ کے بتوں کے آگے کون جھک گیا ہے اور کس نے دین اسلام کو عملاً چھوڑ دیا ہے تو اس کا جواب بھی سوال کے اندر موجود ہے کہ وہ اقبال ہے ۔ مراد ہے کہ عہد حاضر میں مسلمانوں کے دونوں طبقوں کی حالت درست نہیں ۔ حالت اس وقت درست ہو گی جب مسلمان دین و دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلے گا ۔ دنیا کو دین کے تابع رکھتا ہوا اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائے گا ۔
(۷)
کہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد کہ ہے مردِ مسلماں کا لہو سرد
معانی: کہن: پرانے ۔ ہنگامہ ہائے آرزو: آرزو کے ہنگامے ۔ سرد: ٹھنڈے ۔
مطلب: اس رباعی کے شروع میں علامہ کہتے ہیں کہ قدیم مسلمانوں میں اسلام کی سربلندی کے لیے جو آرزوئیں موجود تھیں اب ختم ہو گئی ہیں اور اس کی وجہ سے آج کے مسلمان کی رگوں میں وہ خون سرد ہو کر رہ گیا ہے جو اسے دین و دنیا دونوں میدانوں میں سرگرم عمل رکھتا تھا ۔
بتوں کو میری لادینی مبارک کہ ہے آج آتشِ اللہ ہُو سرد
معانی: لادینی: بے دینی، دین کا نہ ہونا ۔ آتش اللہ ھو: اللہ ھو کی آگ ۔ اللہ ھو: وہی اللہ سب کچھ ہے ۔
مطلب: کبھی مسلمان اللہ ھو کے ذکر سے غیر اللہ کے بتوں کو پاش پاش کر دیا کرتا تھا اس کا اٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا غرض کہ زندگی کا ہر پہلو اللہ کا نقش لیے ہوئے ہوتا تھا ۔ آج یہ ذکر اس کے ہونٹوں پر بطور الفاظ کے تو کہیں ضرور ہو گا لیکن اس کے روح ان میں موجود نہیں ہے ۔ اس لب آشنا اور دل نآشنا ذکر کا لازمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمان کے سینے میں اللہ کی بجائے غیر اللہ نے جگہ بنا لی ہے ۔ اس کے دل میں جہاں صرف خدا آباد ہونا چاہیے تھا نفس کے بت سجے ہوئے ہیں اور وہ شب و روز ان کے آگے جھک رہا ہے ۔ یہ سبب ہے کہ وہ دین اور دنیا دونوں میدانوں میں بازی ہار چکا ہے ۔ بتوں کو مبارک ہو کہ وہ مسلمان جو تمہیں پاش پاش کرنے کے لیے تیار رہتا تھا خود تمہارے آگے جھکا ہوا ہے ۔ بتوں سے مراد یہاں مٹی اور پتھر کے بت نہیں بلکہ غیر اللہ کے بت مراد ہیں ۔ وہ بت جنہیں ہمارا نفس ہر وقت جنتا رہتا ہے ۔ حرص، شہوت، خیانت، محبت ، دولت، نفاق، غیبت، چغلی، ملاوٹ، چوری، ڈکیتی، فساد ، غرض کہ اس قسم کے سینکڑوں بت ہیں جو آج مسلمان کے نفس نے تراش کر اس کے کعبہ دل میں رکھے ہوئے ہیں ۔ ان بتوں کو آج کے اس مسلمان سے جو اللہ کی راہ سے بھٹک چکا ہے کوئی خطرہ نہیں ۔
(۸)
حدیثِ بندہَ مومن دل آویز جگر پرخوں ، نفس روشن، نگہ تیز
معانی: حدیث: داستان ۔ بندہَ مومن: مومن بندہ، اللہ پر کامل ایمان رکھنے والا ۔ دل آویز: دل لبھانے والی ۔
مطلب: وہ شخص جو اللہ پر صحیح ایمان رکھتا ہے اور اس کی بنا پر علم و عمل کی دنیا میں ایسے مقام پر فائز ہے جو اللہ بس اور باقی ہوس کا مقام ہے وہ مومن کہلاتا ہے ۔ مومن کی صفات تو بہت ہیں ۔ اقبال نے بھی اپنے کلام میں مختلف جگہ بیان کی ہیں لیکن اس رباعی میں وہ کہتے ہیں کہ مومن کی زندگی کی کہانی بڑی دلچسپ اور دل لبھانے والی ہے ۔ مومن کا جگر خون سے بھرا ہوا ہوتا ہے یعنی اس میں عشق حقیقی موجزن ہوتا ہے اور وہ حیات کے ہر میدان میں سرگرم عمل رہتا ہے ۔ اس کی ہر سانس روشن اور تیز ہوتی ہے ۔ اس بنا پر وہ علم و عمل کی دنیا میں نیکی و بدی، خیر و شر، حق و باطل، شرک و توحید وغیرہ میں تمیز روا رکھتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے ۔
میسر ہو کسے دیدار اس کا کہ ہے وہ رونقِ محفل کم آمیز
معانی: میسرہو: حاصل ہو ۔ دیدار: زیارت کرنا، دیکھنا نصیب ہونا ۔ رونق محفل: مجلس کی رونق ۔ کم آمیز: کم ملنے جلنے والا ۔ نفس: سانس ۔ پرخوں : خون سے بھرا ہوا ۔
مطلب: اسے لوگ دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں اور کہیں ہوتے بھی ہیں تو ان کی زیارت کا شرف کم حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ محفل کی رونق ہوتے ہوئے محفل سے الگ تھلگ رہتے ہیں ۔ لوگ اگرچہ ان کی طرف کھچے چلے آتے ہیں لیکن وہ ان سے اس طرح میل جول نہیں رکھتے جس طرح دنیاوی تعلقات والے رکھتے ہیں بلکہ اس طرح ملتے ہیں کہ دل ان کا خدا کی طرف اور ہاتھ کام کی طرف ہوتا ہے ۔ وہ راہبوں کی طرح دنیا سے کنارہ کش نہیں ہوتے لیکن دنیا اس طرح نبھاتے ہیں کہ اللہ بھی نہ بھولے اور دنیا بھی ان سے استفادہ کرتی رہے ۔ ایسے مرد کو اقبال نے اپنے کلام میں مرد مومن کے علاوہ مردِکامل، مرد فقیر، مرد درویش، وغیرہ کے نام دیئے ہیں ۔