Please wait..

(۸)

 
جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں ، زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانہَ دل کے مکینوں میں

معانی: جنھیں : مراد محبوب حقیقی ۔ ظلمت خانہ: تاریک گھر، جگہ ۔ مکیں : رہنے والا ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں اقبال کہتے ہیں کہ خدائے وحدہُ لاشریک تک رسائی حاصل کرنے کے لیے میں زمینوں اور آسمانوں کو کھنگالتا رہا جب کہ ذرا گہرائی سے دیکھا تو وہ میرے دل میں ہی موجود تھا ۔ اس لمحے مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ خدا تو انسان کے دل میں ہی رہتا ہے تا ہم اس حقیقت کے ادراک کے لیے معرفت کا شعور بنیادی شرط ہے ۔

 
حقیقت اپنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنی
مکاں نکلا ہمارے خانہَ دل کے مکینوں میں

مطلب: اس شعر کا مفہوم بھی کم و پیش پہلے شعر سے ملتا جلتا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ جب مجھے اس امر سے آگاہی ہوئی کہ میری حقیقت کیا ہے تو اس امر کا علم بھی ہوا کہ اللہ تعالیٰ تو خود میرے دل میں موجود ہے ۔ مراد یہ ہے کہ رب ذوالجلال کو پانے کے لیے اپنی حقیقت تک رسائی بھی ناگزیر ہے ۔

 
اگر کچھ آشنا ہوتا مذاقِ جبہ سائی سے
تو سنگِ آستانِ کعبہ جا ملتا جبینوں میں

معانی : آشنا: واقف ۔ مذاقِ جبہ سائی: ماتھا گھسانے یعنی سجدہ کرنے کا ذوق ۔ سنگِ آستان کعبہ: کعبہ کی چوکھٹ کا پتھر ۔
مطلب: اس شعر میں کہا گیا ہے کہ خانہ کعبہ کا وہ پتھر جس کی جانب رخ کر کے ہم سجدہ ریز ہوتے ہیں اگر اس میں بھی جذبہ اور ذوق موجود ہوتا تو متحرک ہو کر خود ہماری پیشانیوں سے ہم آہنگ ہو جاتا ۔

 
کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں 
کہ لیلیٰ کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں

معانی: مجنوں : لیلیٰ کا عاشق ۔ لیلیٰ: عرب کی مشہور حسینہ جس کا رنگ کالا تھا ۔ محمل نشینوں : اونٹ پر لدے کجاوہ ، پردہ میں بیٹھنے والی ۔
مطلب: اس شعر میں مجنوں کو مخاطب کر کے اقبال استفسار کرتے ہیں کہ اتنا بتا دے کہ محض عشق میں مگن رہنے کے سوا کچھ تو نے اپنی ذات میں بھی جھانک کر دیکھا ہے اس لیے کہ میرے نزدیک تو تو بھی اسی طرح پردے میں چھپا ہوا ہے جس طرح کہ تیری محبوبہ لیلیٰ محمل نشین تھی ۔ مراد یہ ہے کہ کوئی شخص بھی اس وقت تک خود کو نہیں پہچان سکتا جب تک کہ وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر خود کو نہ دیکھے ۔

 
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں

معانی: وصل: محبوب سے ملاپ ۔ گھڑیوں کی صورت: مراد بڑی تیز ی سے ۔ مہینوں میں : مراد بہت آہستہ ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال محبوب سے وصل اور فراق کے معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب محبوب سے وصال یعنی ملاپ کے مواقع عاشق کو حاصل ہوتے ہیں تو مہینے بھی لگا کر چند لمحوں میں اڑ جاتے ہیں جب کہ اس سے جدائی کے چند لمحات بھی مہینوں پر محیط دکھائی دیتے ہیں ۔

 
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں

معانی: ناخدا: ملاح، کشتی چلانے والا ۔ غرق ہونا: ڈوبنا ۔ سفینوں : جمع سفینہ، کشتیاں ۔
مطلب: اے ملاح جب ڈوبنا ہی میرا مقدر ٹھہرا تو سمندر میں کودنے سے بھلا تو مجھے کس طرح روک سکے گا ۔ اس لیے کہ ڈوبنے والے تو کشتی میں بیٹھے بٹھائے بھی ڈوب جاتے ہیں ۔

 
چھپایا حُسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے
وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں

معانی: کلیم اللہ: خدا سے باتیں کرنے والا، حضرت موسیٰ کا لقب ۔ جس نے: خدا نے ۔ ناز آفریں : ادا پیدا کرنے والا، مراد ناز و ادا کرنے والا ۔ جلوہ پیرا: مراد اپنا حسن، تجلی ظاہر کرنے والا ۔ نازنینوں : جمع نازنین، مراد کل مخلوقات جس میں خدا کا جلوہ ہے ۔
مطلب: رب ذوالجلال نے بے شک اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر اپنا جلوہ دکھانے سے گریز کیا بلکہ اس کا وجود تو دنیا کی ہر خوبصورت چیز میں پوشیدہ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جن لوگوں میں معرفت الہٰی کی صلاحیت موجود ہے وہ تو اس کا جلوہ ہر حسین شے میں دیکھنے کے اہل ہوتے ہیں ۔

 
جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس ان کی
الہٰی کیا چھپا ہوتا ہے اہلِ دل کی سینوں میں

معانی: شمعِ کشتہ: بجھی ہوئی موم بتی ۔ موجِ نفس: سانس کی لہر، پھونک ۔ اہلِ دل: مراد عشق کا جذبہ رکھنے والے ۔
مطلب: اے رب ذوالجلال! یہ تو بتا کہ اہل دل کے سینوں میں وہ کون سی قوت پوشیدہ ہو سکتی ہے جو اپنی ایک پھونک سے بجھی ہوئی شمع کو پھر سے روشن کر سکتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں تو نے ایسی کون سی صلاحیت پیدا کی ہے جو ناممکن بنانے کی اہل ہوتی ہے ۔

 
تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں

معانی: دردِ دل: مراد عشق الہٰی ۔ گوہر: موتی، دولت ۔ خزینوں : جمع خزینہ ، خزانے ۔
مطلب: اگر تجھے جذبہ عشق کے حصول کی تمنا ہے تو پھر ادھر اُدھر بھٹکنے کی بجائے ان درویشوں کے پاس جا جو ہر شے سے بے نیاز ہو کر عبادت خداوندی کے علاوہ عام انسانوں کے کام آتے ہیں ۔ یہ جان لے کہ جذبہ عشق ایسا جوہر ہے جو کسی بادشاہ کے خزانے میں نہیں مل سکتا کہ یہ خزانے تو محض ہوس کے آماجگاہ ہیں ۔

 
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

معانی: خرقہ پوش: گدڑی پہننے والا ۔ ارادت: عقیدت، اعتقاد ۔ یدِ بیضا: روشن ہاتھ، حضرت موسیٰ کا ایک معجزہ ۔
مطلب: ان گدڑی پوش لوگوں کے بارے میں تحقیق و تجسس بے معنی بات ہے ۔ اے شخص اگر تجھے ان سے کچھ عقیدت و محبت ہے تو یہ راز خود ہی تجھ پر منکشف ہو جائے گا کہ یہ لوگ تو معجز نما ہیں اور اپنی آستینوں میں معجزے چھپائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔

 
ترستی ہے نگاہِ نارسا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کی ہے انھی خلوت گزینوں میں

معانی: نگاہِ نارسا: محبوب تک نہ پہنچنے والی نظر ۔ خلوت گزیں : تنہائی اختیار کرنےوالا، اللہ والا ۔
مطلب:اس شعر میں کہا گیا ہے کہ وہ آنکھیں جن کی حقیقت تک رسائی نہیں وہ ان گدڑی پوشوں کے نظارے کو ترستی رہیں گی حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہی خلوت نشین گدڑی والے بزرگوں سے ہی اس دنیا کی رونق قائم ہے ۔ ان کے بغیر تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔

 
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمنِ دل کو
کہ خورشیدِ قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں

معانی: شرر: چنگاری ۔ پھونکنا: جلانا ۔ خرمن: غلے کا ڈھیر ۔ خورشید قیامت: قیامت کے روز نکلنے والا سورج ۔ خوشہ چیں : مراد فیض حاصل کرنے والا ۔
مطلب: اے میرے حبیب تو اس کائنات کی حقیقت جاننے کا خواہاں ہے تو تو اپنے خرمن دل کو ایسی چنگاری سے پھونک دے کہ آفتاب کو بھی تجھ پر رشک آئے اور وہ بھی تیرے خوشہ چینوں میں شمار ہو سکے ۔ مراد یہ ہے کہ کائنات کا احوال جاننے کے لیے اس علم کی روشنی حاصل کر جو آفتاب کے لیے بھی رشک کا سبب بن جائے ۔

 
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں

معانی: ٹوٹنے والا دل: ذرا سی ٹھیس سے متاثر ہونے والادل ۔ نازک: جو مضبوط نہ ہو ۔ مے: شراب ۔ آبگینوں : جمع آبگینہ، شیشے کا برتن ۔
مطلب: اگر تجھے طلب عشق ہے تو وہ حساس دل تلاش کر جو شکستگی کا آئینہ دار ہو کہ عشق و محبت تو ایسی حقیقتیں ہیں جو انتہائی نازک اور حساس عوامل سے ہم آہنگ ہو سکیں ۔ مراد یہ ہے عشق ہر کسی کے بس کا روغ نہیں ۔ یہ تو ایسے دل میں جگہ پا سکتا ہے جو نازک آبگینوں کی مانند ہوتے ہیں ۔

 
پھڑک اٹھا کوئی، تیری ادائے ما عرفنا پر
ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں

معانی: پھڑک اٹھا: تڑپ اٹھا، عش عش کر اٹھا ۔ ادا: انداز ۔ ما عرفنا: حضور اکرم ﷺکی حدیث ہے ہم نے اے خدا تجھے ویسا نہیں پہچانا ہے جیسا پہچاننے کا حق ہے ۔
مطلب: یہ شعر عملاً نعتیہ ہے جس میں حضور سرور کائنات کے اس ارشاد کی جانب اشارہ ہے جس میں حضورنے فرمایا تھا کہ ہم نے خدائے بزرگ و برتر کو پہنچانا تو ضرور! تاہم اس طرح نہیں پہچانا جیسا کہ اس کا حق تھا ۔ چنانچہ سروردوعالم کا یہ عجز خالق حقیقی کو بہت بھایا اور اس نے حضورکا مقام و مرتبہ دنیا بھر کے خوبصورت لوگوں سے بڑھا دیا او ر ان کے مراتب مزید بلند کر دیے ۔

 
نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا
بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں

جمال: حسن ۔ چرچے: جمع چرچا، شہرتیں َ باریک بیں : جس کا فہم بہت تیز ہو ۔
مطلب: اقبال حضورسرور کائنات سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے فلسفی اور دانشور ایک عرصے سے آپکی ذات والا صفات اور مراتب کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا ہیں یہ ان پر کرم ہو گا کہ حضورخود ہی ان کو اپنا جلوہ دکھا دیں تو ساری صورتحال ان کی سمجھ میں آ جائے گی ۔

 
خموش اے دل! بھری محفل میں چلّانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

معانی: چلانا: زور سے بولنا ۔ ادب: دوسروں کا پاس لحاظ ۔ قرینہ: سلیقہ، ڈھنگ ۔
مطلب: اقبال یہاں کہتے ہیں کہ اے دل ناصبور! تجھے تو اپنے محبوب سے حقیقی عشق کا دعویٰ ہے اس کے باوجود تو بھری محفل میں نالہ و فریاد کر رہا ہے ۔ حالانکہ جو لوگ عشق و محبت کے دعویدار ہوتے ہیں انہیں اس حقیقت کا ادراک بھی یقیناً ہوتا ہے محبت جو قرینے ہیں ان میں ادب و احترام اولین قرینہ ہے ۔

 
بُرا سمجھوں انھیں مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں

معانی: نکتہ چین: عیب ڈھونڈنے والا ۔
مطلب: اس غزل کے مقطع میں اقبال یوں گویا ہیں کہ جو لوگ میرے نکتہ چیں اور ناقدہیں انکو میں کس طرح برا کہہ سکتا ہوں جب کہ میں تو خود اپنی ذات کے نکتہ چینوں اور ناقدوں میں سے ہوں ۔